پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے کابل میں طالبان حکومت کی سینئر قیادت سے ملاقات کی ہے۔
وائس آف امریکہ افغان سروس کے مطابق پاکستانی وفد نے کابل میں افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم ملا عبدالغنی برادر سے بھی ملاقات کی۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی بدھ کو جاری بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی وفد نے کابل میں طالبان حکام سے ملاقات میں سیکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے داعش اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے درپیش خطرات پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق بات چیت کے دوران فریقین نے دہشت گرد تنظیموں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اُٹھانے پر اتفاق کیا۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان میں کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
چند روز قبل پاک، افغان سرحد طورخم پر دونوں ملکوں کی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے چار روز سے بند ہے۔
دونوں ملکوں کے تعلقات میں گزشتہ ماہ پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے کے بعد مزید تناؤ آ گیا تھا۔
اس واقعے میں پولیس اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ واقعے کے بعد پاکستانی وزرا نے افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی طالبان کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے پر تنقید کی تھی۔
طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کا الزام افغانستان پر عائد کرنے کے بجائے اپنا گھر خود ٹھیک کرنا ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان حکام کے ساتھ ٹی ٹی پی کے حوالے سے کافی عرصے سے بات چیت جاری ہے لیکن بد قسمتی سے یا تو اس حوالے سے طالبان کی استعداد کار کی کمی ہے یا پھر وہ فیصلہ کن کارروائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
'خطے کے ممالک افغان طالبان سے مایوس ہیں'
اسلام آباد میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کی ڈائریکٹر امینہ خان کہتی ہیں کہ صرف پاکستان ہی نہیں خطے کے دیگر ممالک بھی افغان طالبان سے مایوس ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شدت پسند تنظیم داعش کی افغانستان کے بعد اس کی ہمسایہ ملکوں میں بھی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں جس پر دیگر ملکوں کو تشویش ہے۔
امینہ خان کے بقول طالبان کا یہ مؤقف کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اس سے دونوں ممالک دہشت گردی کے معاملے پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
وہ کہتی ہیں کہ افغان طالبان کے لیے بھی مشکل ہو گا کہ وہ پاکستانی طالبان پر زیادہ دباؤ ڈالیں، تاہم وہ اُنہیں کارروائیاں کم کرنے پر قائل کر سکتے ہیں۔
'پاکستانی وفد کے دورے سے زیادہ اُمید وابستہ نہیں کرنی چاہیے'
افغان اُمور کے ماہر سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ ماضی میں امریکہ بھی افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کرتا رہا ہے مگر اس کا نتیجہ صفر ہی نکلتا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ افغان طالبان کے ساتھ پاکستانی وفد کی بات چیت کے کوئی خاطر خواہ نتائج نکل سکیں گے۔
امینہ خان کا کہنا تھا کہ دوحہ امن معاہدے کے تحت طالبان اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے پابند ہیں۔
اُن کے بقول بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسی صرف عالمی برادری کے لیے ہے جب کہ اس کے ہمسایہ ملکوں میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
حال ہی میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو اردو کو دیے گئے انٹرویو میں افغانستان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ جب تک ہمسایہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی پاکستان کے لیے سیکیورٹی خطرات رہیں گے۔
افغانستان کی پژواک نیوز ایجنسی کے سینئر ایڈیٹر سید مدثر شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان دونوں دہشت گردی کا شکار ہیں، لہذٰا دونوں کو مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنی ہو گی۔
سید مدثر شاہ کے مطابق اس وقت افغانستان کو اقتصادی مشکلات کے ساتھ ساتھ انسانی بحران کا بھی سامنا ہے اور اگر یہ بڑھتا گیا تو خدشہ ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔