1978ء میں افغانستان پر سویت یونین کے قبضے سے بعد شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو وہاں سے آنے والے 30 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ جن کی ایک بڑی تعداد اپنے ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے واپس جانے سے گریزاں ہے۔ گذشتہ تین عشروں سے اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی موجودگی پاکستان کی معیشت پر اثرانداز ہورہی ہے۔تاہم ایک امریکی تھنک ٹینک سے منسلک ماہر معاشیات زبیر اقبال کہتے ہیں کہ پاکستان کی مجموعی معیشت پر مہاجرین کی موجودگی کے اثرات اتنے نمایاں نہیں جتنے کہ مقامی معیشت پر۔
ان کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی موجود تین طرح کے اثرات مرتب کررہی ہے۔ یعنی قدرتی ذخائر ، زمین اور سہولیات کا زیادہ استعمال۔
تاہم زبیر اقبال کے مطابق پاکستان میں گزشتہ تقریبا تین عشروں سے موجود ان کی موجودگی نے زندگی کے کچھ شعبوں پر مثبت اثرات بھی مرتب کیئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ افغان بہت محنتی لوگ ہیں۔وہ ٹرانسپورٹ اور ہاتھوں سے کام کاج کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔ کئی ایک ملازمتیں بھی کررہے ہیں۔
اپنا پیٹ پالنے کے لیے ملازمت اور کاروبار کے ذریعے افغان پناہ گزین ملک کی پیداوار میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر افراد مالی مشکلات اور پاکستانی شہری نہ ہونے کے سبب کم اجرت پربھی کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔۔جس سے آجر کو تو فائدہ ہوتاہےلیکن پاکستانی شہریوں کے لیے مناسب اجرت پر ملازمت کا حصول دشوار ہو جاتا ہے۔
زبیر اقبال کہتے ہیں کہ اسی اور نوے کی عشروں میں پاکستان کا رخ کرنے والے افغان مہاجرین کی نئی نسل پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے اور ملک کی مجموعی معاشی ترقی کے لیے اب انہیں پاکستانی معاشرے کا فعال حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
اقبال کا کہنا ہے اس مقصد کے لیے انہیں تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معیشت بہتر بنانے میں ہاتھ بٹا سکیں۔
زبیر اقبال کے مطابق بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن میں واپسی وہاں کے حالات میں واضح بہتری کے بعد ہی ممکن ہوگی۔جس کی جلد توقع نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ افغان پناہ گزینوں کو ایک عارضی مسئلہ سمجھنے کے بجائے انہیں پاکستانی معیشت کے مستقل حصے کے طور پر دیکھنا ملک کی مجموعی قومی ترقی کے لئے ناگزیر ہو گیا ہے۔