پاکستان کے شمالی مغربی ضلع پشاور کی انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں افغانوں کو ایک ماہ کے اندر وطن واپس لوٹ جانے کی ہدایت کی ہے۔
ضلعی رابطہ افسر سراج احمد خان نے بدھ کو پشاور میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ شہر میں امن وامان کی بہتری اور دہشت گردی کے خلاف مہم کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔
’’مناسب اندراج کے بغیر رہائش پذیر پناہ گزینوں کو 25 مئی تک رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جانے کا موقع دیا جا رہا ہے جس کے بعد غیر ملکیوں سے متعلق قوانین کے تحت ان کے خلاف کارروائی کر کے ان پر باقاعدہ مقدمات چلائے جائیں گے۔‘‘
ضلعی رابطہ افسر نے کہا کہ ابتدائی مرحلے میں اس فیصلے کا اطلاق صرف پشاور شہر میں کیا جائے گا جہاں اُن کے بقول اندازاً چار لاکھ افغان غیرقانونی طور پر یا پھر اندراج کے بغیر آباد ہیں۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ 25 مئی کے بعد پولیس ان افغانوں کے خلاف چھاپوں کا سلسلہ شروع کرے گی اور اس سے قبل غیر قانونی افغان باشندوں کی نشاندہی کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔
’’سرکاری ٹیمیں صوبے کے تمام حصوں، بازاروں اور مدارس کا مفصل سروے کرکے ان میں مناسب دستاویزات کے بغیر موجود افغانوں کی نشاندہی کریں گے اور یہ افغان پناہ گزینوں کے بارے میں رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کی جائے گی۔‘‘
تاہم ضلع رابطہ افسر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ’یو این ایچ سی آر‘ اور افغان حکومت کے ساتھ طے شدہ معاہدوں پر پاکستان مکمل عمل درآمد کا پابند ہے۔
پاکستان میں اس وقت درج شدہ افغانوں کی تعداد 17 لاکھ ہے جن کی رضا کارانہ وطن واپسی کے لیے اس سال 31 دسمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
غیرقانونی افغانوں کو وطن بھیجنے کی ڈیڈلائن کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب دو مئی کو جنیوا میں افغان پناہ گزینوں کی صورت حال کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔
اس اجلاس میں افغانوں کی رضاکارانہ وطن واپسی سے متعلق حکمت عملی اور ان کی میزبانی کرنے والے ملکوں کی مالی معاونت زیر بحث آئے گی۔