حال ہی طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت یورپی یونین سے جن پناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے ان میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
انہی میں ایک اجمل بھی ہیں جو پاکستان میں الیکٹریشن کا کام کرتے تھے، اجمل کے دو دوستوں کو لیسبوس جزیرے سے سینکڑوں دیگر افراد کے ساتھ ترکی واپس بھیج دیا گیا تھا۔
ان کے دوستوں کو جزیرے پر ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا تھا جس میں ہزاروں افراد مقیم تھے اور جہاں سے جانے کی اجازت نہیں تھی۔
انہیں فوج کی موجودگی میں جہازوں میں بٹھایا گیا اور اکثر کو ترکی میں اسی جگہ واپس لے جایا گیا جہاں سے انہوں نے اپنے یورپ سفر کا آغاز کیا تھا۔
اجمل کے دوستوں فراق اور امجد نے انہیں بتایا کہ ترکی پہنچنے کے بعد انہوں نے پولیس میں اپنا اندراج کرایا۔ توقع تھی کہ انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا جائے گا اور پیر کی دوپہر کے بعد سے ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔
لیسبوس میں ایک کیمپ میں مقیم اجمل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہمیں ڈر ہے کہ ہمیں بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘ اس کیمپ میں ہر کوئی اپنی مرضی سے رہ سکتا ہے اور کسی کو قید نہیں رکھا جاتا۔
کیمپ میں مقیم افراد کا کہنا ہے کہ ساحل پر واقع اس عارضی کیمپ کو بدھ تک خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہاں سے وہ حراستی مرکز جا سکتے ہیں یا جنگل میں مگر وہ ایسی جگہ نہیں رہنا چاہتے جہاں سے انہیں جانے کی اجازت نہیں۔
الجیریا کے ایک 25 سالہ شہری عامر نے کہا کہ ’’ہر روز ہم خوف کی حالت میں ہیں۔ پولیس آ رہی ہے۔ فوج ہمیں ڈرانے آ رہی ہے۔‘‘
اسی کیمپ میں چند پاکستانی نوجوانوں نے ہاتھوں میں کتبے اٹھا کر نعرے بازی کی کہ ’’ہم انسان ہیں۔‘‘ کتبوں پر لکھا تھا ’’ہمیں پناہ چاہیئے‘‘ اور ’’ہم ترکی واپس جانے کی بجائے یہاں مر جانا پسند کریں گے۔‘‘
بہت سے پناہ گزین یونان میں پناہ کی درخواست نہیں دینا چاہتے جو خود اقتصادی بحران کا شکار ہے مگر مظاہرے میں شریک پاکستانیوں نے کہا کہ وہ یونان میں رہنا چاہتے ہیں مگر انہیں پناہ کی درخواست دینے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔
تاہم بین الاقوامی قوانین انہیں پناہ کی درخواست دینے کی اجازت دیتے ہیں۔
کوئی بھی شخص جسے ’’نسل، مذہب، شہریت یا کسی خاص سماجی اور سیاسی نظریے کی پیروی پر ایذا پہنچنے کا خدشہ ہو‘‘ وہ پناہ کے لیے درخواست دے سکتا ہے مگر اس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں سے آئے افراد کو جلد پناہ گزین کا درجہ مل جائے۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ نئے آنے والوں میں پناہ کے بارے میں معلومات عربی اور یونانی زبان میں فراہم کی جا رہی ہیں، نا کہ اردو یا انگریزی میں جس کے باعث پاکستانیوں کو معلومات حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
الیکٹریشن اجمل کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان اس لیے چھوڑا کیونکہ انہیں شدت پسند گروہوں کی طرف سے نشانہ بنائے جانے کا خطرہ تھا۔ مظاہرے میں شریک دیگر افراد کا کہنا تھا وہ کاروبار کرتے تھے اور انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جرائم پیشہ افراد کی طرف سے جان کا خطرہ تھا۔
ایک نوجوان نے صاف گوئی سے کہا کہ اس نے اس لیے گھر چھوڑا کیونکہ وہ بہت غریب تھے اور انہوں نے سنا تھا کہ یورپ میں اچھا مستقبل مل سکتا ہے۔