"میں مارچ ٹوئنٹی ٹوئنٹی میں ایک جرنلزم فیلو شپ پہ امریکہ آیا ، ، یہ وہ وقت تھا جب اس وقت پاکستان میں ملٹری اور پولیٹکل لیڈرشپ نے ایک خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا تھا ، جو اپنی انتہاہ پہ پہنچ چکا تھا ، میں نے اپنا ایک پروجیکٹ شروع کیا تھا وہاں ، اسے بھی آئی ایس آئی نے میرے گھر پر ریڈ کر کے اسے بند کر دیا اور آخرکار میں یہاں آیا"، یہ الفاظ ہیں پاکستانی انوسٹی گیٹو جرنسلٹ احمدنورانی کے ۔
احمد نورانی پاکستان میں گزشتہ 15 سال سے زیادہ عرصے سے منظم جرائم، سیاست، کرپشن، فراڈ اور ہیومن رائٹس پر ایکسکلوسو رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں ۔
احمد نورانی بتاتے ہیں کہ اکتوبر 2017 میں اسلام آباد میں زیرو پوائنٹ کے قریب موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے احمد نورانی کی گاڑی کو زبردستی روکا اور پھر انہیں گاڑی سے باہر نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ احمد نورانی کو کئی بار دھمکیاں بھی مل چکی ہیں ۔
رپورٹس کے مطابق نومبر 2021 میں نورانی کی اہلیہ، عنبرین فاطمہ کی گاڑی پر ایک نامعلوم حملہ آور نے حملہ کیا جو لاہور میں ان کے گھر کے قریب سے فرار ہو گیا، اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔
امریکہ میں جلاوطنی کے دوران بھی احمد نورانی نے صحافت کا سلسلہ جاری رکھا اور 2020 سے 'فیکٹ فوکس'' نامی ویب سائٹ سے منسلک ہیں ، جسے احمد نورانی اور صحافیوں کی ایک ٹیم مل کر چلاتے ہیں ۔
"یہاں سے میں نے اپنی جرنلزم جاری رکھی اور جو میں خبریں کر رہا تھا ، اس کے جواب میں پاکستان میں کپمین چلائی جاتی تھیں اور وہ جو کمپین چلائی جاتی ہیں وہ غداری کے فتوی سے شروع ہو کر مذہب تک جاتی ہیں ۔ جب آپ کے بارے میں اس طرح کی چیزیں ایک ملک میں نیشنل لیول پر چل رہی ہوتی ہیں تو خطرات تو ہوتے ہیں ۔ سب سے زیادہ تھریٹ لیول آپ کی فیملی کے لیے ہوتا ہے جو اس سسٹم میں رہ رہے ہوتے ہیں ۔
یہاں امریکہ میں رہتے ہوئے فیکٹ فوکس ویب سائٹ پر اگست 2020 میں احمد نورانی نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے خاندان کے اثاثوں کی رپورٹ جاری کی۔ نومبر 2021 میں انہوں نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب ایک آڈیو کلپ اپ لوڈ کیا جس میں وہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزا پر دباؤ ڈالنے کے بارے میں دیگر نامعلوم افراد سے بات کر رہے تھے۔
گزشتہ برس نومبر میں احمد نورانی نے اس وقت کے حاضر سروس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلِ خانہ کے ٹیکس ریٹرنز اور ان کی دولت میں کئی گنا اضافے کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس رپورٹ کی تردید کی تھی۔ احمد نورانی کے خلاف ایف آئی اے میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے ۔
طٰحہ صدیقی ایوارڈ یافتہ پاکستانی صحافی مصنف اور آزادی اظہار کے سرگرم کارکن ہیں ۔ وہ 2018 سے پیرس میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
یہ سوال مجھ سے ہر وقت پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے پاکستان چھوڑ دیا تو اب تو آپ محفوظ ہوں گے ۔ میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے یہاں پر ریاست نے مجھے کم از کم پناہ دی ہے ۔ میری حفاظت کر رہی ہے۔ میں یہاں خود کو سیفر محسوس کرتا ہوں لیکن مکمل سیف نہیں ۔
طٰحہ صدیقی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 10 جنوری 2018 کو اسلام آباد ایئرپورٹ جاتے ہوئے نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی روکی ، زبردستی دوسری گاڑی میں بٹھایا اور اغوا کرنے کی کوشش کی۔
لیکن طحہ کسی طرح جان بچانے میں کامیا ب ہو گئے ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنی رپورٹس میں پاکستانی فوج پر تنقید کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ آئی ایس پی آر کے لوگوں کی جانب سے انہیں وقتاً فوقتاً ڈرایا دھمکایا بھی جاتا رہا ، جس کی وجہ سے انہیں پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
"جب میں یہاں پر آیا تو امریکی اور فرانسیسی اتھارٹی نےمجھے بتایا کہ میرا نام ایک "کل لسٹ" پر ہے ، اور اگر آپ پاکستان واپس گئے تو یقینا مار دیے جائیں گے ۔اس کے علاوہ مجھے یہاں ٹیلی فون کال آئی کہ آپ پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں ۔ ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے ۔ پھر میں نے یہاں پولیس کیس کرایا۔ اس کی پوری انوسٹیگیشن ہوئی ۔ میرے والدین جو پاکستان میں رہتے ہیں ابھی بھی ، بہت بار ان کے پاس لوگ گئے ہیں جو خود کو آئی ایس آئی کہتے ہیں۔ انہوں نے میری پوری فائل ان کے سامنے رکھی ، ایک بار ان کو سیف ہاؤس لے گئے جہاں مجھے ڈر تھا کہ واپس آئیں گے یا نہیں ۔ پھر پچھلے دنوں انہوں نے میری والدہ کو کہا کہ طٰحہ اپنے آپ کو فرانس میں بڑا سیف سمجھتا ہے لیکن ہمارے ہاتھ بہت لمبے ہیں اپنے بیٹے کو آپ سمجھائیں "۔
طٰحہ صدیقی پیرس میں دی ڈیسیڈنٹ کلب کے نام سے ایک بار چلاتے ہیں اور اسی نام سے انہوں نے حال ہی میں اپنی ذاتی اور صحافتی زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر "دی ڈیسیڈنٹ کلب "کے عنوان سے ایک کامک بک بھی لکھی ہے ۔
پاکستانی جلاوطن صحافیوں ،بلاگرز اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت کے بعد وہ پہلے سے زیادہ خوفزدہ ہیں کہ مختلف سوچنے ، دیکھنے اور لکھنے والوں کو چھوڑا نہیں جائے گا چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں ۔ایسا سوچنے والوں میں ایک نام ہے احمد وقاص گورایا کا۔۔
احمد وقاص گورایا پاکستانی بلاگر ہیں اور اس وقت وہ نیدرلینڈز میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
وائس آف امریکہ سے بذریعہ سکائپ بات کرتے ہوئے وقاص بتاتے ہیں کہ 2007 سے وہ اور ان کی اہلیہ نیدر لینڈز میں رہ رہے تھے ۔ 2017 میں وہ اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے لاہور گئے تھے جس دوران انہیں اغوا کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ کئی ہفتے نامعلوم مقام پر رکھنے کے بعد انہیں رہائی ملی ۔
"ہم فیس بک پر ایک بیج چلاتے تھے موچی کے نام سے ، جس میں پاکستانی فوج کی سیاست میں مداخلت اور ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں اور صحافیوں کا مذاق اڑاتے تھے ۔لیکن ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمیں اٹھالیں گے۔ میرے اغوا کو جسٹی فائی کرنے کے لیے انہوں نے میرے اوپر توہین رسالت کے الزامات لگا دیے ، جو بعد میں عدالت میں جا کر جھوٹے ثابت ہو گئے ، لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ میرے سارے خاندان کو ملک چھوڑنا پڑا" ۔
احمد وقاص گورایا اس کے بعد نیدرلینڈز واپس آ گئے ۔ لیکن وقاص کے مطابق یہاں بھی ان کی زندگی اور ان کا خاندان محفوظ نہیں ۔ان پر حملے ہو چکے ہیں ،اور ڈرایا دھمکایا جا تا رہا ہے ۔
"فروری 2021 سے میں اپنے گھر اپنے محلے ، اپنے علاقے نہیں جا سکتا ۔ میرے والدین ، میرے بہن بھائی جو اسی ملک میں رہتے ہیں ان کو نہیں پتہ کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ ابھی پاکستان میں حکومت بدل گئی ہے ۔ آرمی چیف بدل گیا ہے ، لیکن سیکیورٹی کی صورت حال ہمارے لیے نہیں بدلی ۔ آج بھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آپ نے احتیاط کرنا ہے ۔ آپ کی جان کو خطرہ ہے ۔آپ نے آن لائن ایکٹویٹی محدود رکھنی ہے تاکہ آپ ٹریک نہ کیے جاسکیں" ۔
نیدرلینڈز میں رہتے ہوئے 2021 میں احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی سازش کا ایک کیس سامنے آیا تھا ۔29 جنوری 2022 کو برطانوی عدالت نے اس کیس میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری گوہر خان کو مجرم قرار دیا ۔اس مقدمے کی دستاویزات کے مطابق قتل کی یہ سازش پاکستان میں تیار کی گئی۔ جس میں گوہر خان کو “کرائے کے قاتل” کے طور پر رقم ادا کی گئی ۔اور اسی سال 11 مارچ کو اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرنے والے کئی صحافیوں کے ایسے دعوؤں پر ردِعمل کے لیے وی او اے نے ہمیشہ کی طرح اس رپورٹ کے لیے بھی پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ (آئی ایس پی آر) کا موقف بھی جاننا چاہا مگر تاحال کوئی جواب نہیں مل سکا ہے ۔
پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی کے ادارے ایسے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث ہیں۔
پاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے۔رپورٹرز وڈ آوٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی صحافیوں کے لیے خطرات میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے ۔اور بعض اوقات یہ دھمکیوں سے بھی آگے کی بات ہوتی ہے۔
پیرس میں صحافتی آزادی کے لئے کام کرنے والے ادارے رپورٹر ز ود آوٹ بارڈرز سے وابستہ ڈینیئل ناسٹغ نے وائس آف امریکہ سے بذریعہ سکائپ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس فوج کے کچھ حصے اور خفیہ اداروں کے صحافیوں کا پیچھا کرنے کے اس رجحان کے بارے میں کچھ ثبوت ہیں۔
" سب سے زیادہ تشویشناک معاملہ ارشد شریف کا ہے۔ یہ پاکستان کے اندر پوری صحافتی برادری کے لیے ایک دھچکہ ہے چاہے وہ کسی بھی میڈیا سے وابستہ ہوں اور آزادی صحافت کے ادارے کے طور پر یہ ہمارے لیے بھی واقعی تشویشناک ہے۔جب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک سے باہر صحافی اچھی طرح سے آزاد رہ سکتے ہیں، تو ایسا نہیں ہے ۔ کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان پر یا تو براہ راست دباؤ ڈالا جاتا ہے یا پیچھے رہ جانے والے ان کے خاندان کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے "۔
وفاقی وزیر اطلاعات اور نشریات مریم اورنگزیب نے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ شہباز شریف کی قیادت والی حکومت کے آنے کے بعد ملک میں میڈیا کے خلاف تشدد اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے اور حکومت صحافیوں کی فلاح اور ان کی سیکیورٹی کے لیے پرعزم ہے۔