بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع بڈگام کے قریب سوبگ کے علاقے میں رہائش پذیر 5 5سالہ فاطمہ بیگم اپنی بیٹی کی موت پر دو ماہ سے سوگ میں ہیں۔ ان کے ارد گرد ان کے رشتے دار اور پڑوسی بیٹھے ہیں اور وہ چیخ کر رو رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے محیط الاسلام کی رپورٹ کے مطابق سات مارچ کی صبح فاطمہ بیگم کی 28 سالہ بیٹی عارفہ جان قریب ہی واقع کمپیوٹر ٹریننگ سینٹر جانے کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔ لیکن جب وہ شام تک گھر نہ لوٹیں تو ان کے اہل خانہ نے مقامی پولیس کو ان کے لاپتا ہونے کی رپورٹ درج کرائی۔
عارفہ جان کے ماموں مذعور احمد ملک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ہم عارفہ سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے کیوں کہ ان کا موبائل بند جا رہا تھا۔"
ان کے بقول اگلے روز پولیس نے گمشدگی کی شکایت پر کچھ لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔
احمد ملک نے بتایا کہ دو روز بعد پولیس نے اپنی تحقیقات تیز کردیں اور عارفہ جان کا فون ریکارڈ حاصل کرنے کے بعد خاندان کے ایک جاننے والے شخص شبیر احمد وانی سے تفتیش کی تاکہ عارفہ کا پتا چل سکے۔
ان کے بقول "دوران تفتیش شبیر نے خود کو بچانے کے لیے کہانیاں گھڑیں لیکن پولیس نے اپنی تفتیش جاری رکھی اور اس دوران انہوں نے میری بھانجی کو (قتل کرنے کا اعتراف) کیا۔"
ان کے بقول "مجرم ہمارے گاؤں کا ایک ترکھان نکلا۔"
احمد ملک کا کہنا تھا کہ "اپنے جرم کو چھپانے کے لیے اس نے لاش کے کئی ٹکڑے کیے اور اسے اپنے آس پاس کئی مقامات پر دفن کردیا۔"
خواتین کے خلاف جرائم
گزشتہ کئی برسوں میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں خواتین کے خلاف تشدد، قتل، ریپ اور جسمانی حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بھارت کی نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے رپورٹ کیا کہ سال 2021 میں خطے میں خواتین کے خلاف جرائم میں 15.2 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔
بھارتی اخبار 'دی ہندو' نے رپورٹ سے متعلق بتایا کہ 2021 میں تین ہزار 937 کیسز رپورٹ کیے گئے۔ 2020 میں یہ تعداد 3405 جب کہ 2019 میں 3069 تھی۔
خواتین سے متعلق جرائم سے نمٹنے والے ایک وکیل رومان منیب سمجھتے ہیں کہ جرائم میں اضافے کے کئی عناصر ہیں جن میں خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی کا نہ ہونا، منشیات کا استعمال اور حکام کی جانب سے قوانین کو برقرار رکھنے میں سنجیدگی کا فقدان شامل ہے۔
ان کے بقول ہوسکتا ہے کہ کشمیر میں جرائم کی شرح اتنی نہ ہو جتنی بھارت کے دیگر حصوں میں ہے۔ لیکن خواتین کے تحفظ کے لیے یونین آف انڈیا کی جانب سے نافذ کردہ قوانین سے متعلق بیداری پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔
رومان منیب کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے میں ناکامی کا ممکنہ نتیجہ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کا باعث بنے گا۔
سرینگر کے قریب عیدگاہ محلے کے ایک رہائشی نثار احمد چیلو نے اپنا اور اپنی بیٹی کا سامان اس لیے باندھا ہے تاکہ وہ اپنے مزید علاج کے لیے بھارتی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چنئی جاسکیں۔
یکم فروری 2021 کو 25 سالہ تمنا (فرضی نام) جب کام سے گھر آ رہی تھیں تو اسکوٹر پر سوار دو افراد نے ان کا راستہ روکا اور چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔
نثار احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا "اس دن کے بعد سے ہمارے اوپر بہت مشکل وقت گزرا ہے۔ اب تک ان کی بیٹی چنئی کے دو مختلف اسپتالوں میں آنکھ کے 25 اور چہرے کے دو آپریشنز کروا چکی ہے۔"
ان کے بقول اس کا گھرانہ اس واقعے کے صدمے سے اب تک مکمل طور پر باہر نہیں نکل سکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس جرم کے ذمے دار دونوں افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔ ان کے بقول حملہ کرنے والوں میں ایک شخص بیٹی کا سابق منگیتر تھا۔
نثار احمد کا کہنا تھا کہ "ہم نے اس وقت منگنی ختم کردی تھی جب ہمیں معلوم ہوا تھا کہ وہ اچھا شخص نہیں ہے کیوں کہ وہ میری بیٹی کی محنت سے کمائی گئی رقم اور سونے کے زیورات لے جاتا تھا۔"
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جرم ان کی جانب منگنی کو جاری رکھنے سے انکار کا نتیجہ ہے۔ مگر ان کی بیٹی بہادر نکلی اور وہ عدالت میں سزائے موت کا مطالبہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
سرینگر کی 33 سالہ میر سبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شادی کے فوراً بعد انہیں اپنے شوہر اور سسرالیوں کی جانب سے تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ اپنے بچے کے ہمراہ اپنے والدین کے گھر آگئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ "تین برسوں تک میں نے سب کچھ برداشت کیا۔ لیکن جب مجھے لگا کہ میں غیرمحفوظ ہوں تو میں اپنے والدین کے گھر واپس آگئی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی لیکن کچھ نہیں ہوا۔"
دریں اثنا عارفہ جان کے والد محمد شفیع خان نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث ہر شخص کو سزائے موت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ عمر قید بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ جرائم کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
ان کے بقول سزائے موت ہمارے غموں کا مداوا نہیں کرے گی بلکہ ہمیں کچھ اطمینان ملے گا کہ یہ مجرمان اب زندہ نہیں ہیں۔