پاکستان میں قانون سازوں نے کہا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں خاص طور پر داعش کے خطرے کا تذکرہ اس عفریت سے نمٹنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جس کے لیے عالمی سطح پر منظم کوششیں کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔
صدر اوباما نے منگل کو دیر گئے اپنے سالانہ خطاب میں القاعدہ اور داعش کو امریکیوں کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان دہشت گردوں کو جڑ سے ختم اور تباہ کیا جائے گا۔
پاکستان کے ایوان زیریں "قومی اسمبلی" کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے رکن رانا محمد افضل کہتے ہیں کہ داعش کے خطرے سے متعلق امریکہ کے صدر کچھ کہہ رہے ہیں تو اس بات کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
"میں سمجھتا ہوں کہ اگر امریکہ کا صدر یہ بات کہہ رہا ہے تو یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کیونکہ ان کے پاس جو معلومات اور وسائل ہیں وہ شاید دنیا کے کسی مک کےپاس نہیں تو ہمیں اس کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں یہ عام تاثر ہے کہ داعش یہاں موجود نہیں یا نہیں آئے گی یا خطرہ نہیں ہے تو اس کو جب تک موثر انداز سے نہ روکا گیا تو دنیا کے اقتصادی نظام اور بہت سارے مالک کی جغرافیائی سالمیت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔"
شدت پسند گروپ نے حال ہی میں پاکستانی سرحد کے قریب افغان صوبے ننگرہار میں اپنے قدم جمائے ہیں اور وہاں سکیورٹی فورسز اور طالبان سے ان کی جھڑپیں بھی ہوتی آرہی ہیں۔
پاکستانی حکومت گوکہ یہ کہتی آئی ہے کہ اس شدت پسند گروپ کی اس ملک میں کوئی باضابطہ موجودگی نہیں اور حکام اس خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن حالیہ دونوں میں مختلف علاقوں سے داعش سے ہمدردی رکھنے والے درجنوں افراد کو گرفتارکیا گیا جب کہ حکام کے مطابق لگ بھگ ایک سو افراد داعش میں شمولیت کے لیے شام بھی گئے ہیں۔
سابق وفاقی وزیرداخلہ اور قومی اسمبلی کے موجودہ رکن آفتاب احمد خان شیرپاؤ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف مل کر کوششیں کرنے سے ہی خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
"(منظم انداز میں کارروائی) بہت ضروری ہے تب کہیں جا کر ایک ہی سمت کے ساتھ لائحہ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ ایسے اگر افراتفری میں کام کریں گے تو اس کا نتیجہ صحیح نہیں نکلے گا۔"
سابق وزیرخارجہ اور پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ داعش سے متعلق صدر اوباما کی تشویش میں وزن ہے۔
"اس میں کوئی شک نہیں کہ القاعدہ اور اس کے اتحادیوں نے دنیا کو بے پناہ نقصان پہنچایا اور بہت سے مظلوم لوگ اس کی زد میں آئے۔ داعش ایک نیا عفریت ہے جو جنم لے رہا ہے اور دنیا اس سے غافل نہیں رہ سکتی، ہمیں پاکستان میں بھی اس سے چوکنا رہنا ہوگا۔۔۔دنیا میں اس (داعش) کے خلاف ایک منفی سوچ ہے اور دنیا نے اس کے خلاف کام بھی کیا تو صدر اوباما کی تشویش میں وزن ہے۔"
داعش نے جون 2014ء میں عراق اور شام کے ایک وسیع حصے پر قبضہ کر کے وہاں نام نہاد خلافت قائم کی اور اپنا دائرہ اثر خراسان تک بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ خراسان میں تاریخی اعتبار سے افغانستان، پاکستان اور اس کے قریبی علاقے شامل ہیں۔
امریکہ نے داعش کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام اور عراق میں فضائی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔