سانحہ ساہیوال کے بعد میڈیا میں بچوں کی کوریج پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سانحے کے فوری بعد میڈیا نے مقتول خلیل کے بچوں سے انٹرویو لئے اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا یہاں تک کہ اے آر وائی نیوز چینل کے اینکر عارف بھٹی نے اپنے پروگرام میں مقتول خلیل کی ایک بیٹی سے سوالات کئے جن میں یہ سوالات بھی تھے کہ بچی سے پوچھا گیا کہ آپ کے ابو کہاں گئے ہیں، اور بچی کے کہنے پر کہ فوت ہو گئے ہیں اینکر نے پوچھا کہ کیسے فوت ہو گئے ہیں، کل تک تو وہ درست تھے۔
اس پروگرام کے بعد اس پر مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی بہت تنقید کی گئی۔
معروف اینکر اور تجزیہ نگار ضرار کھوڑو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اصولاً تو میں اس بات کا مخالف ہوں کہ جو بچے ابھی اس سانحے سے گزر رہے ہیں ان سے میڈیا ایسے سوالات کرے۔ لیکن اگر شروع میں بچوں کے ایسے کلپ نہ آتے تو شاید یہ کیس ایکسپوز نہ ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ بعد میں انہوں نے دیکھا کہ ایک خاتون اور پھر ایک معروف اینکر بچوں سے ایسے سوالات کر رہے ہیں کہ آپ کے ابو کہاں ہیں، کیا آپ آج ابو سے ملے ہیں، کل تو آپ کے ابو صحیح تھے۔ جب کہ انہیں پتہ ہے کہ ان کے ابو مارے جا چکے ہیں۔ بچوں سے یہ پوچھنا کہ ’ان کے ابو کو کس نے مارا‘ کی کوئی صحافتی وجہ نہیں ہے۔
ان کے مطابق اس کی صرف یہی وجہ تھی کہ بچہ روئے اور انہیں ایک جذباتی ساؤنڈ بائٹ مل جائے۔
ضرار کھوڑو کا کہنا تھا کہ یہ صحافت نہیں ہے بلکہ سینسیشنل ازم ہے۔ اس کی کوئی ثقافتی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔
میڈیا میٹرز فار ڈیماکریسی کی ڈائریکٹر پروگرامز صدف خان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی افسوس ناک بات ہے جیسے میڈیا نے اس قدر شدید صدمے کے وقت ان بچوں کے ساتھ برتاؤ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دلیل بہت افسوس ناک ہے کہ اگر سانحہ ساہیوال میں قتل ہونے والے خلیل کے بچوں کے انٹرویوز نہ ہوتے تو شاید اس کیس پر ملک میں ایسی توجہ نہ دی جاتی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک سماج کے طور پر ہم کہاں کھڑے ہیں کہ ان بچوں کو بار بار نفسیاتی صدمہ پہنچائے بغیر ہم اتنے سنگین معاملے کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں ہیں۔
نفسیاتی ماہر عاصمہ ہمایوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کسی بچے سے انٹرویو کیا جاتا ہے تو اس کے کچھ قوانین ہوتے ہیں۔ بچے کی شناخت کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس صورت میں ہی ظاہر کی جاتی ہے جب کسی بڑے کی مرضی شامل ہو۔ انہوں نے کہا کہ بچوں سے ایسے سوال نہیں کرنے چاہئے جس سے صدمے کی حالت دوبارہ پیدا ہو، جیسے کون کون مرگیا، کیسے مرا اور پھر کیا ہوا وغیرہ۔
انہوں نے کہا کہ ساہیوال سانحے کے بعد اس موقع پر بچوں کو سماجی و نفسیاتی طور پر حفاظت کی ضرورت تھی۔ لیکن اس پر میڈیا کا جو رول تھا اس پر بہت سے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
عاصمہ ہمایوں کا کہنا تھا کہ اس بات کی کوئی پیشگوئی تو نہیں کی جا سکتی مگر بچوں پر ان واقعات کے بہت دور رس نفسیاتی اثرات ہوں گے۔
ضرار کھوڑو کا کہنا تھا کہ ان کے مطابق پیمرا کو اس انٹرویو پر کارروائی کرنی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے، سوشل میڈیا تو ان پر پھٹ گیا تھا اور ان اینکرز کا کسی نے بھی دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی سنعت اپنے آپ کو ریگولیٹ نہیں کرتی ہے۔ اسی لئے حکومتی ایجنسیز ہی ایسے معاملات کو ریگولیٹ کرتی ہیں۔
ضرار کھوڑو کا کہنا تھا کہ اس کے لئے صارفین کو ریموٹ کنٹرول کا استعمال بھی کرنا ہو گا۔
’’دنیا بھر میں جب لوگ ایسے کسی چینل کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو وہ ساتھ ہی اس کے سپانسرز کو بھی ٹارگٹ کرتے ہیں کہ کیا آپ ایسی قدروں کی حمایت کرتے ہیں؟‘‘
صدف خان کا کہنا تھا کہ میڈیا اتنا زیادہ کمرشل ہے کہ کسی بھی قسم کے اخلاقی کوڈ کا خیال نہیں کیا جاتا۔
’’جب تک عوامی دباؤ اس طرح کا پیدا نہیں ہوتا، میرا نہیں خیال کہ جو ان کے کمرشل مفادات ہیں اور جو ان کی ریٹنگ کی دوڑ ہے، جو کلک لینے کی بھوک ہے وہ اسے بالائے طاق رکھ کر کسی اخلاقی اور ایتھیکل کوڈ کی طرف جائیں گے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی عوامی مہم کی ضرورت ہے کہ ان موضوعات کو ایڈیٹرز تک لائے تاکہ میڈیا ایک مشترکہ لائحہ عمل لا سکے جس میں انسانی جذبات کی بھی حفاظت کی جائے۔
وائس آف امریکہ نے اینکر عارف بھٹی سے ان کا موقف لینے کی کوشش کی مگر ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔