رسائی کے لنکس

سلمان تاثیر کا قتل: پاکستان پولیس کی کارکردگی ایک بار پھر زیر بحث


سلمان تاثیر کا قتل: پاکستان پولیس کی کارکردگی ایک بار پھر زیر بحث
سلمان تاثیر کا قتل: پاکستان پولیس کی کارکردگی ایک بار پھر زیر بحث

پنجاب پولیس کے آہنی حفاظتی حصار میں انکے اپنے صوبے کے گورنر سلمان تاثیر بھی محفوظ نہیں رہے۔ مبصرین کے مطابق اس واقعہ نے ایک بار پھر پولیس کی تاریخ اور اسکی کارکردگی کو عوامی کٹھڑے میں لا کھڑا کیا ہے۔

کورٹ کیسز اور میڈیا رپورٹس کے مطابق مختلف دہشتگردی کے واقعات اور سنگین الزامات کے تحت گرفتار ہونیوالے ملزمان پولیس کی ناقص تفتیش کے نتیجے میں ناکافی شہادتوں کے باعث عدالتوں سے بری ہوتے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں دہشتگردی کے شکار عوام میں یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ پنجاب پولیس بےقصوروں کو گرفتار کرنے اورمجرموں کو فرار کروانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

اخبارات اور پاکستانی ٹی وی چینلز سے جمع شدہ مصدقہ اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتول گورنر سلمان تاثیر کے مبینہ قاتل ممتاز قادری پولیس میں غالبا پہلے پولیس اہلکار نہیں جو کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث رہے ہیں ۔

جیوٹی وی کے مطابق سینئر پولیس آفیسر ڈی آئی جی سید سعود عزیز اور انکے نائب خرم شہزاد کومحترمہ بینظیر بھٹوکو 2007 میں ہلاک کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں عدالتی حکم پر کمرہ عدالت سے گرفتار کیاگیا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے یہ حکم اس وقت جاری کیا جب عدالت دسمبر 2010 میں راولپنڈی اڈیالہ جیل میں اس خصوصی مقدمہ کی سماعت کر رہی تھی۔

انگریزی اخبار دی نیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق گورنر پنجاب کے قتل سے چند روز قبل اسلام آباد پولیس اور وفاقی وزارت داخلہ کو اس وقت خجالت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب وفاقی پولیس نےایک خودکش حملہ آور کو گرفتار کیا جوکہ فرنٹیرکانسٹیبلری کا سابق کانسٹیبل تھا اور وہ اسلام آباد کی ڈپلومیٹیک انکلوژر میں سیکیورٹی ڈیوٹی پر مامور تھا۔

اسی طرح اکتوبر 2010 میں راولپنڈی پولیس نے اڈیالہ جیل راولپنڈی کے جیل سپریٹنڈنٹ سیعداللہ گوندل اور ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پولیس خالد بشیرکو سپریم کورٹ کے باہر سےگرفتار کرلیا۔ ان پولیس افسران کے خلاف پنڈی تھانہ صدربیرونی میں مقدمہ درج تھا۔یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ پنڈی بنچ کے حکم پر درج کیا گیا تھا۔ ان پولیس اہلکاروں پر الزام تھا کہ انہوں نے چار دہشت گردی کے مقدمات میں بری ہونیوالے گیارہ مبینہ دہشت گردوں یا بےقصور لوگوں کو غائب کرادیا۔ بعد میں ایک ڈویژن بنچ کے ربرو سعیداللہ نے بیان دیا کہ یہ افراد انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں تاہم پولیس کی ناکافی شہادتوں کے باعث عدالت کو ان ملزمان کو بری کرنا پڑا۔

ان گیارہ افراد پر الزام تھا کہ وہ اٹک میں کامرہ ایئربیس پر راکٹ مارنے، انیٹیلی جنس کی ایک بس پر خودکش حملہ کرنے اور سابق صدر پرویزمشرف کے جہاز پر اینٹی ایئرکرافٹ سے فائرنگ کرنے کےمنصوبوں میں شامل تھے۔

دی نیشن کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر 2010 میں لاہور قلعہ گوجرسنگھ پولیس لایئنز میں ضلع بھر سے مختلف اوقات میں 4000 پولیس اہلکاروں کو اختیارات کے ناجائز استعمال اور قانون ہاتھ میں لینے کی پاداش میں بطور سزا تبادلے کیے گئے۔ جبکہ 2010 میں صرف لاہورشہر میں جہاں 28000 سے زائد پولیس اہلکار ڈیوٹیاں دے رہے ہیں میں سے 17234 پولیس اہلکاروں کو جرائم کی پشت پناہی یا اختیارات کا ناجائز استعمال پر اور مختلف بے قائدگیوں پر ڈسپلن کیا گیا یا سزائیں سنائی گئیں۔

اس صورتحال پر پنجاب کے وزیرقانون راناثنااللہ نے کہا کہ سابق دور (مسلم لیگ ق) میں کرپشن کی بنیاد پر پولیس میں بھرتیاں کی گئیں جسکی وجہ سے پولیس کی کارکردگی خراب ہے راناثنااللہ کے مطابق پولیس کے محکمہ میں کوئی خرابی نہیں بلکہ یہ سب تو غلط بھرتیوں کے نتائج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت پولیس ڈیپارٹمنٹ میں میرٹ کویقینی بنا رہی ہے۔

2009 میں موخر انگریزی روزنامے دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق میرمرتضی بھٹو قتل کیس میں ملوث مبینہ اٹھارہ پولیس اہلکار ناکافی شہادتوں کے باعث عدالت سے بری ہوگئے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ بھی سوال پیدا ہورہے ہیں کہ کیا پولیس اپنے ہی خلاف تحقیقات کرکے اپنے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے میں غیرجانبدار رہ سکتی ہے؟

پولیس کی اعلی کارکردگی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انکی تحقیقات کے نتیجے میں لشکرجھنگوی۔جنداللہ۔جیش محمد۔لشکرطیبہ و دیگر تنظیموٕ ں سے تعلق رکھنے والے نامی گرامی مبینہ دہشت گرد مختلف اوقات میں عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں حتی کہ وہ بھی بری ہو گئے جنکی گرفتاری پر ٹیلیویژن چینلز نے کئ کئ گھنٹوں کی براہ راست نشریات دکھائیں۔

اخبارات سے حاصل کئے گئے مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی ایک عدالت نے سن 2010میں دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں ملوث جنداللہ کے چیف قاسم طوری کو ناکافی شہادتوں کی بنیاد پر رہا کردیا۔ لاہور مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار مبینہ دہشتگرد ہجرت اللہ کو پولیس تفتیش میں ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بدالت سے بری کردیا گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملزم سے موقع پر ایک ہینڈگرنیڈ اور دیگر دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا اور اس نے اپنے ملوث ہونے کا اقرار بھی کیا تھا۔

اسی طرح لشکرجھنگوی کے مبینہ دہشت گرد ملک اسحاق کے خلاف 44مقدمات درج ہیں اور اسپر 70 افراد کو قتل کرنے کا الزام ہے مگر وہ اور اسکے ساتھی ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت سے بری ہوگئے۔ اسی طرح ایسے درجنوں مقدمات کے تحت مبینہ دہشت گرد گرفتار تو ہوتے رہے مگرپولیس کی تفتیش اور ناکافی شہادتوں کے باعث رہا ہو گئے۔

پاکستان کے ایک سابق پولیس آفیسر حسن عباس جو کہ آجکل امریکہ میں مختلف تھنک ٹینکس سے وابستہ ہیں کی تحقیق کے مطابق دہشتگردی کیخلاف پولیس کا کردار کے مطابق پولیس پاکستان کا نہایت قابل رحم ادارہ ہے جسکے پاس نہ آلات ہیں۔ نہ ہی ٹرینیگ۔ یہ سیاست کا شکار کرپٹ ترین ادارہ ہے۔

اسلام آباد کے ڈپٹی انسپکڑجزل پولیس (آپریشن) بن یامین جوکہ گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس دہشتگرد گرفتار کرتی ہے اور ان سے بارودی مواد کے علاوہ خودکش جیکٹیں بھی برآمد کرلیتی ہے لیکن عدالتی ٹرائل میں سب کے سب بری ہوجاتے ہیں۔پولیس کی تفتیش میں نہ تو کوئی خامی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی رہی۔ دہشت گردوں سے بالکل پیشہ وارانہ انداز میں تفتیش کی گئی لیکن عدالتوں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ان دہشتگردوں کیخلاف کوئی فیصلہ دے سکیں بن یامین کا کہنا تھا کہ عدالتوں نے کبھی کوئی بکری چور بھی بری کیا ہے؟ میڈیا کوچاہیے کہ وہ اس بات کا بھی جائزہ لے کہ عدالتوں نے کتنے چور بری کیے اور کتنی تعداد میں دہشت گرد بری کیے؟

پاکستان بارکونسل کے وائس چیرمین محمد کاظم خان نے وائس آف امریکہ کو بتا یا کہ عدلیہ کا اس میں کوئی قصور نہیں پولیس ٹھوس شہادتیں ہی پیش نہیں کرپاتی ججز نے تو سزائیں سنائیں مگران پر عمل درآمدا حکومتوں کی ذمہ داری تھی جو کہ انہوں نے پوری نہیں کی۔ عدالتی سزاؤں کے نتیجے میں صرف ایک دہشت گرد محرم علی کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوسکا اب یا تو حکومتیں خائف ہیں ان دہشت گردوں سے یا مصلحت کا شکار یا پھر انکی ایجنٹ۔ کاظم خان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے علاوہ ہماری ایجنسیوں کی بھی خواہش یہی رہی کہ ان سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہو انہوں نے کہا کہ اگر چند دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوجائے توملک میں امن ہو جائے گا۔ سزاوں پر عمل درآمد نہ ہونے سے انکے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG