پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر کا قتل ایسے وقت ہوا ہے جب ملک سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ تا ہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس واقعے سے مرکزی حکومت کے استحکام پر، جو پہلے ہی ڈانوا ڈول ہے، کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس قتل سے انتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور پاکستانی سیاست دانوں میں خوف و ہراس پیدا ہوگا۔
سلمان تاثیر پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کے گورنر تھے۔ لیکن اس حیثیت میں وہ سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ طاقتور نہیں تھے۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں گورنر کے بجائے وزیرِ اعلیٰ زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔
انٹیلی جنس کی پرائیویٹ فرم سٹارٹفار کے تجزیہ کار کامران بخاری کہتے ہیں کہ اس طرح مرکزی حکومت کا براہِ راست سیاسی اثر کم ہو جاتا ہے۔’’ پاکستان میں گورنرز اور صدر رسمی عہدے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس قتل سے کوئی بہت بڑا دھچکہ نہیں لگا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی ایک اعلیٰ عہدے دار کا قتل ہے جو ملک کے مذہبی قوانین پر نظرِ ثانی کی کوششوں میں پیش پیش تھا۔ مرحوم سلمان تاثیر اپنے سیکولر نظریات کے پُر زور اظہار میں کبھی پیچھے نہیں رہتے تھے‘‘۔
سلمان تاثیر کو منگل کے روز اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں ان کے اپنے گارڈ نے بالکل قریب سے گولیاں چلا کر ہلاک کردیا۔ ان کے قاتل نے کہا کہ اس نے گورنر تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ وہ پاکستان کے توہینِ رسالت کے متنازعہ قوانین کے خلاف تھے جن میں اسلام کی توہین کرنے پر موت کی سزا رکھی گئی ہے۔ تاثیر جیسے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قوانین عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں پر ظلم کرنے اور ذاتی دشمنی کا بدلہ چکانے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔
یہ بات واضح نہیں ہے کہ قاتل ملک ممتاز حسین قادری اس جرم میں اکیلا تھا یا اس میں دوسرے لوگ بھی شامل تھے ۔ لیکن اس قتل سے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے۔ کامران بخاری کہتے ہیں کہ اس سے سکیورٹی اور پولیس کی ایجنسیوں کے اندر انتہا پسندی کے مسئلے کا بھی پتہ چلتا ہے۔’’ اگر وہ لوگ جن کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ مملکت اور معاشرے کو اسلامی باغیوں سے بچائیں اگر وہ خود بھی ان لوگوں کے زیر ِاثر آجائیں تو اس سے پاکستان کی صورتِ حال واضح ہو جاتی ہے جہاں مملکت کو اس رجحان سے جنگ کرنے کا مرحلہ درپیش ہے‘‘۔
حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی متحدہ قومی موومنٹ کے اچانک مخلوط حکومت سے الگ ہو جانے سے مضطرب تھی کیوں کہ اب پاکستان پیپلز پارٹی اقلیتی حکمراں پارٹی بن گئی ہے۔ لیکن ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی لیسا کرٹس کہتی ہیں کہ تاثیر کے قتل سے سیاسی بحران پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ ’’یقیناً دوسری پارٹیاں اس کی مذمت کریں گی۔ میرے خیال میں حکومت کو جو سیاسی بحران درپیش ہے، اس واقعے سے اس میں مزید کوئی نئی پیچیدگی پیدا نہیں ہو گی۔ پھر بھی پاکستانی معاشرے کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو ترقی کرنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں یہ بڑا افسوسناک واقعہ ہے‘‘۔
وہ کہتی ہیں کہ اس واقعے سے توہین رسالت کے قانون کو کالعدم قرار دینے کی کوششیں رک جائیں گی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی نے ان قوانین کو ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن مذہبی پارٹیوں کے دباؤ کی وجہ سے وہ اپنے کوششیں ختم کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
حزبِ اختلاف نے جس کی قیادت نواز شریف کے پاس ہے کہا ہے کہ وہ کم از کم اس وقت عدم اعتماد کے ووٹ کی کوشش نہیں کرے گی۔ لیکن امریکہ کے نیول وار کالج کے پروفیسر حیات علوی نے اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حزبِ اختلاف توہینِ رسالت سمیت، حکومت سے کچھ رعایتیں طلب کر سکتی ہے۔ ’’اگر حزب اختلاف توہینِ رسالت کے قوانین کو ختم کرنے کے سلسلے میں کوئی رعایت طلب کر رہی ہے، تو یہ واقعہ بڑے غلط وقت پر ہوا ہے۔ اب حزب ِ اختلاف کے پاس رعایتیں طلب کرنے کے بہت سے مواقع ہیں کیوں کہ اب ان کی سودے بازی کرنے کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ اگر انہیں وہ سب نہ ملا جو وہ چاہتے ہیں، تو وہ اعتماد کے ووٹ کا مطالبہ کر سکتے ہیں‘‘۔
لیکن علوی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ وہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔