بشکیک میں موجود پاکستانی طلبہ کے مطابق وہ سفارت خانے کے ہدایات کے مطابق اپنے رہائشی کمروں تک محدود ہو چکے ہیں۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ ہفتے کی شب ان کے ہاسٹلوں اور رہائشی فلیٹوں میں بعض افراد نے گھسنے کی کوشش کی تھی۔ کچھ طلبہ کا کہنا ہے کہ متعدد اداروں میں 27 مئی سے امتحانات شروع ہو رہے ہیں۔ وطن واپسی سے تعلیمی سلسلہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ |
کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں غیر ملکی طلبہ کے لیے حالات اب بھی معمول کے مطابق نہیں ہیں۔ ہفتے کی صبح سے کسی بھی پاکستانی طالب علم پر تشدد کی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی اس کے باوجود طلبہ ہاسٹلوں اور رہائشی فلیٹوں میں اپنے کمروں تک محدود ہیں۔
پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر برائے کشمیر اور شمالی علاقہ جات امیر مقام نے مبینہ طور پر کرغز حکومت کی درخواست پر کرغزستان کے دارالحکومت کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ اس دورے کی منسوخی کی اطلاعات سے بشکیک میں طلبہ اور طالبات مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے طالب علم عباس خان بشکیک کے ایک نجی میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔ عباس خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ سفارت خانے کے ہدایات کے مطابق اپنے رہائشی کمروں تک محدود ہو چکے ہیں۔
ان کے بقول شہر کے مختلف علاقوں میں جہاں جہاں پاکستان، مصر، بھارت اور دیگر ممالک کے طلبہ مقیم ہیں وہاں پر مقامی افراد، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، ٹولیوں کی شکل میں گھومتے پھرتے نظر آرہے ہیں۔
عباس خان کا کہنا تھا کہ ہفتے کی شب ان کے ہاسٹلوں اور رہائشی فلیٹوں میں بعض افراد نے گھسنے کی کوشش کی تھی۔ البتہ انہوں نے اپنے رہائشی مقامات کے دروازے اور کھڑکیاں سختی سے بند کر دی تھیں۔
ایک اور طالب علم منصور حسین نے عباس خان کی گفتگو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب پاکستانی طلبہ نے اپنے رہائشی فلیٹوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے۔
منصور حسین نے بتایا کہ بہت سے طلبہ نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرکے کرغزستان فوری طور پر چھوڑ کر وطن واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفارت خانے کی جانب سے خصوصی پروازوں کا انتظام کرنے کی یقین دہانی کرائی جا ریی ہے۔
سفارت خانے نے ہفتے کی صبح متاثرہ طلبہ کے لیے خصوصی ٹیلی فون لائن اور وٹس ایپ نمبر بھی جاری کیے ہیں جس پر عباس خان اور منصور حسین کے مطابق طلبہ نے رابطے کرنا شروع کر دیے ہیں۔
زیادہ تر طلبہ فی الوقت وطن واپسی کو ترجیح دے رہے ہیں مگر حماد حسین کا کہنا ہے کہ بہت سے اداروں میں 27 مئی سے امتحانات شروع ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے وطن واپسی سے تعلیمی سلسلہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ان کے بقول اسی وجہ سے وہ اور ان کے بہت سے ساتھی واپس جانے کے لیے تیار نہیں۔
حماد حسین کا کہنا تھا کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ مقامی سول اور پولیس حکام یا تو ان بلوائیوں کے سامنے بے بس ہے یا انہوں نے از خود اپنے آپ کو خاموش تماشائی بنایا ہوا ہے۔
متاثرہ طلبہ کے بقول وہ مسلسل اپنے والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
کرغستان میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے کئی درجن طلبہ بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
اسکردو سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی رجب قمر نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ طلبہ نے پاکستان کے سفارت خانے اور گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے رابطہ اور تعاون نہ کرنے کی شکایت کی ہے۔
مگر گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ گلبر خان نے اسلام آباد میں وزیرِ اعظم اور وزارتِ خارجہ سے ہفتے کی صبح رابطہ کیا تھا جب کہ وزیر اعلیٰ کے معاونِ خصوصی یاسر تابان بشکیک میں پاکستانی سفیر سے مسلسل رابطے میں ہیں۔