چاروں طرف سے خشکی سے گھرا افغانستان تاریخی طور پر پاکستان پر مشتمل علاقوں کو کراچی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے تجارتی راہداری کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان 2500 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد کے ذریعے رسمی اور غیر رسمی تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جس کی بنیاد پر افغانستان پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
اگرچہ اس حجم میں مزید اضافہ کرنے کی بہت گنجائش موجود ہے مگر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کے باعث ایسا نہیں کیا جا سکا۔
افغانستان کو شکایت ہے کہ پاکستان نے اس کے سامان اور شہریوں کی آمدورفت پر قدغن عائد کر رکھی ہے مگر پاکستانی عہدیدار کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہاں سے آنے والا سامانِ تجارت غیر قانونی طور پر پاکستان میں فروخت کر دیا جاتا ہے جس سے مقامی صنعت کو نقصان پہنچتا ہے۔
پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر خان حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ افغانستان سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بغیر کسی اندارج کے سرحد پار آتے جاتے ہیں جسے کسی ضابطہ کار میں لانا ضروری ہے۔
’’پاکستان کی جانب سے سرحد پار افراد اور اشیا کی آمدورفت کو منظم بنانے کی کسی بھی کوشش کو افغانستان کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
مگر ان کے بقول جلد یا بدیر ایسا کرنا ضروری ہے۔
تاہم افغانستان پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے شریک صدر زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو ایسے اقدامات پر توجہ دینی چاہیئے جس سے تاجروں کے لیے آسانی پیدا ہو۔
’’ہم تین اہداف پر کام کر رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ تاجر برادری کے سفر میں آسانی پیدا کی جائے اور اس سلسلے میں ہم نے کافی کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ دوسرا سیاست اور تجارت کو الگ کر دیں۔ تیسرا مالی اصلاحات کے ذریعے کسٹم ڈیوٹی کو مناسب تبدیلیاں کی جائیں تاکہ بدعنوان عناصر کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔‘‘
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بغیر کسی سیاسی مداخلت کے تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اس نے افغان ٹرکوں کو کراچی اور واہگہ پر بھارت کی سرحد تک جانے کی اجازت دی ہے جبکہ واپسی پر وہ پاکستان سے سامان درآمد کر سکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اب صرف 20 فیصد افغان ٹرکوں چانچ پڑتال کرتا ہے جبکہ ماضی میں تمام ٹرکوں کی سکیننگ کی جاتی تھی۔ ان کے بقول اس کا مقصد پاکستان کے ذریعے ہونے والی تجارت کے عمل میں تیزی لانا ہے۔