پاکستان میں رمضان آتے ہی ٹی وی چینلزگویا ’رمضان اسپیشلسٹ ‘ہوگئے ہیں۔ چاند کا اعلان ہوتے ہی بیشتر ٹی وی چینلز نے ”رمضان کریم“ ، ”رمضان مبارک“ ،”ماہ صیام“وغیرہ وغیرہ کا ”ٹیگ“ لگالیا ہے۔ جہاں باریش مرد اینکرز نے ٹی اسکرینز سنبھال کر درس شروع کردیئے ہیں تو وہاں خواتین ٹی وی اینکرز نے دوپٹے سروں پررکھ لئے ہیں۔
ٹی وی پروگرامز کے نام تک رمضان سے جڑ گئے ہیں۔ ”شہر رمضان“،” فیضان رمضان“،”رمضان پہچان“،”رونق رمضان“، رمضان کی لذت“ وغیرہ وغیرہ۔
میوزک کا جیسے سب نے بائیکاٹ کردیا ہو۔۔۔ اب ہر ٹی وی حمد، نعتیں اور منقبت پیش کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ سینکڑوں نئی نعتوں اور قوالیوں کی بہار آگئی ہے۔کلام پاک اور احادیث پڑھی جارہی ہیں۔ دینی مفکروں ، دانشوروں ، مفتی حضرات اور قاریوں کی مصروفیات میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے۔ کون سا ٹی وی ہے جو انہیں اپنی اسکرین کی زینت نہ بنانا چاہتا ہو۔
ایک نجی ٹی وی کے عہدیدار آئی ایچ عباسی نے وی او اے سے بات چیت میں بتایا” حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چار چھ برسوں میں ٹی وی چینلز کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے اتنی زیادہ کہ علماء ، نعت خواں اور دانشور یا ماہرین کم پڑھ گئے ہیں“
اگرچہ یہ بات حیران کن ہے مگر عہدیدار کا مزید کہنا ہے”پاکستان میں فرقوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے، ہر فرقے کے اپنے مفکر ہیں۔ ان کے اپنے نظریات اور اپنے عقائد ہیں لہذا ہر چینلز ، ہر پروگرام اور مفکر کو ہر جگہ نہیں بلایا جاسکتا۔ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ چونکہ پاکستان میں مذہب آج بھی ایک حساس معاملہ ہے لہذا کتنا ہی بڑا مفکر اور مفتی کیوں نہ ہواسے احتیاط برتنا پڑتی ہے“
دینی پروگرامو ں کے ایک معروف اینکر ڈاکٹر عامر کو ایک پروگرام ”عالم آن لائن “ سے شہرت ملی ۔ اس پروگرام میں دو مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء سے ناظرین کی جانب سے پوچھے گئے مختلف دینی مسائل پر گفتگوکی جاتی تھی۔
ان دنوں نجی ٹی وی چینلز پاکستان میں نئے نئے متعارف ہوئے تھے اور چونکہ ”عالم آن لائن“ اپنی نوعیت کا اس وقت منفرد پروگرام تھا لہذا دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگیا۔ ادھر پروگرام میں عامر لیاقت حسین نے اپنی آواز میں نعتیں پڑھنا بھی شروع کردیں ۔
ان کی شہرت اس حد تک بڑھی کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے انہیں وزارت حج و مذہبی امور انہیں سونپ دیاتھا۔
آج جب کہ ملک میں ٹی وی چینلز کی بھر مار ہے رمضان شروع ہوتے ہی بڑی بڑی شخصیات اینکرز کے روپ میں نظر آنے لگی ہیں۔ ڈاکٹرشاہد مسعود جو سیاسی تجزئیوں اور تبصروں کے لئے مشہور ہیں اس بار وہ بھی اے آر وائی ڈیجیٹل سے رمضان کا خصوصی پروگرام ”شہر رمضان “ کررہے ہیں ۔ ان کے ساتھ مایہ خان بھی ساتھی اینکر کی حیثیت سے پروگرام میں شریک ہیں۔
ادھر خوش بخت شجاعت،بشریٰ انصاری ، وسیم بادامی ، جیند اقبال اورنوجوان اداکار احسن خان جیسے بہت سے معروف چہرے رمضان کے خصوصی شوز کی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کی ’فیس ویلو‘، مہارت اور تجربے کی بنیاد پر مختلف شوز دیئے گئے ہیں۔ ان شوز میں کہیں مذہبی رنگ نمایاں ہے تو کہیں رمضان اسپیشلٹی برقرار رکھی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کوکنگ سکھانے والے چینلز بھی رمضان کو مدنظر رکھ کر ہر پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔
ایک مبصر ارشاد راوٴ کی نظر میں۔۔ ”اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ رمضان آنے سے ٹی وی ناظرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ عام دنوں میں رات کو چار بجے سے پانچ چھ بجے تک شاید ہی سارا سال اتنے لوگ ٹی وی دیکھتے ہوں گے جتنے رمضان میں سحری کے وقت دیکھتے ہیں۔“
وہ مزید کہتے ہیں” اس تعداد میں افطار کے وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے کیوں کہ اس وقت بچے ، بزرگ اور وہ لوگ جو کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھ پاتے یا سحری میں نہیں اٹھ پاتے وہ افطار کے وقت تو ضرور ہی ٹی وی دیکھتے ہیں۔ روزہ کھولنے کے لئے سب سے پہلے ٹی وی اور پھر محلے کی مسجد سے آنے والی موذن کی اذان سنی جاتی ہے لہذا رمضان کے خصوصی شوز اور خصوصی نشریات سب کے لئے اہمیت کا بااعث ہوتی ہیں“
رمضان شوز کے درمیان آنے والے ’کمرشل بریک‘ کی بات کریں تو وہاں بھی رمضان کا رنگ نمایاں نظر آتاہے۔ ہر پروڈکٹ کی خصوصی رمضان اشتہاری مہم چل رہی ہے۔ ہر اشتہار سے کوئی نہ کوئی رمضان اسکیم جڑی ہے۔ کسی نے پروڈکٹ کی قیمت کم کردی ہے تو کسی کی آفر انعامی ہوگئی ہے۔ گھی کے ساتھ چمچہ اور مصالحے کے ساتھ چھری فری ہے۔ ”بائے ون ۔۔گیٹ ون فری “ اسکیمیں زوروں پر ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ رمضان کے آخر میں یہی اشتہاری مہمات عید کمپین میں بدل جائیں گی۔۔۔اور اس وقت یہ چینلز ایک قلابازی کر عید کے خصوصی پروگراموں دکھانے لگیں گے اور پھر اگے چند روز میں سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔
ٹی وی پروگرامز کے نام تک رمضان سے جڑ گئے ہیں۔ ”شہر رمضان“،” فیضان رمضان“،”رمضان پہچان“،”رونق رمضان“، رمضان کی لذت“ وغیرہ وغیرہ۔
میوزک کا جیسے سب نے بائیکاٹ کردیا ہو۔۔۔ اب ہر ٹی وی حمد، نعتیں اور منقبت پیش کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ سینکڑوں نئی نعتوں اور قوالیوں کی بہار آگئی ہے۔کلام پاک اور احادیث پڑھی جارہی ہیں۔ دینی مفکروں ، دانشوروں ، مفتی حضرات اور قاریوں کی مصروفیات میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے۔ کون سا ٹی وی ہے جو انہیں اپنی اسکرین کی زینت نہ بنانا چاہتا ہو۔
ایک نجی ٹی وی کے عہدیدار آئی ایچ عباسی نے وی او اے سے بات چیت میں بتایا” حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چار چھ برسوں میں ٹی وی چینلز کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے اتنی زیادہ کہ علماء ، نعت خواں اور دانشور یا ماہرین کم پڑھ گئے ہیں“
اگرچہ یہ بات حیران کن ہے مگر عہدیدار کا مزید کہنا ہے”پاکستان میں فرقوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے، ہر فرقے کے اپنے مفکر ہیں۔ ان کے اپنے نظریات اور اپنے عقائد ہیں لہذا ہر چینلز ، ہر پروگرام اور مفکر کو ہر جگہ نہیں بلایا جاسکتا۔ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ چونکہ پاکستان میں مذہب آج بھی ایک حساس معاملہ ہے لہذا کتنا ہی بڑا مفکر اور مفتی کیوں نہ ہواسے احتیاط برتنا پڑتی ہے“
دینی پروگرامو ں کے ایک معروف اینکر ڈاکٹر عامر کو ایک پروگرام ”عالم آن لائن “ سے شہرت ملی ۔ اس پروگرام میں دو مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء سے ناظرین کی جانب سے پوچھے گئے مختلف دینی مسائل پر گفتگوکی جاتی تھی۔
ان دنوں نجی ٹی وی چینلز پاکستان میں نئے نئے متعارف ہوئے تھے اور چونکہ ”عالم آن لائن“ اپنی نوعیت کا اس وقت منفرد پروگرام تھا لہذا دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہوگیا۔ ادھر پروگرام میں عامر لیاقت حسین نے اپنی آواز میں نعتیں پڑھنا بھی شروع کردیں ۔
ان کی شہرت اس حد تک بڑھی کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے انہیں وزارت حج و مذہبی امور انہیں سونپ دیاتھا۔
آج جب کہ ملک میں ٹی وی چینلز کی بھر مار ہے رمضان شروع ہوتے ہی بڑی بڑی شخصیات اینکرز کے روپ میں نظر آنے لگی ہیں۔ ڈاکٹرشاہد مسعود جو سیاسی تجزئیوں اور تبصروں کے لئے مشہور ہیں اس بار وہ بھی اے آر وائی ڈیجیٹل سے رمضان کا خصوصی پروگرام ”شہر رمضان “ کررہے ہیں ۔ ان کے ساتھ مایہ خان بھی ساتھی اینکر کی حیثیت سے پروگرام میں شریک ہیں۔
ادھر خوش بخت شجاعت،بشریٰ انصاری ، وسیم بادامی ، جیند اقبال اورنوجوان اداکار احسن خان جیسے بہت سے معروف چہرے رمضان کے خصوصی شوز کی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کی ’فیس ویلو‘، مہارت اور تجربے کی بنیاد پر مختلف شوز دیئے گئے ہیں۔ ان شوز میں کہیں مذہبی رنگ نمایاں ہے تو کہیں رمضان اسپیشلٹی برقرار رکھی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کوکنگ سکھانے والے چینلز بھی رمضان کو مدنظر رکھ کر ہر پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔
ایک مبصر ارشاد راوٴ کی نظر میں۔۔ ”اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ رمضان آنے سے ٹی وی ناظرین کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ عام دنوں میں رات کو چار بجے سے پانچ چھ بجے تک شاید ہی سارا سال اتنے لوگ ٹی وی دیکھتے ہوں گے جتنے رمضان میں سحری کے وقت دیکھتے ہیں۔“
وہ مزید کہتے ہیں” اس تعداد میں افطار کے وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے کیوں کہ اس وقت بچے ، بزرگ اور وہ لوگ جو کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھ پاتے یا سحری میں نہیں اٹھ پاتے وہ افطار کے وقت تو ضرور ہی ٹی وی دیکھتے ہیں۔ روزہ کھولنے کے لئے سب سے پہلے ٹی وی اور پھر محلے کی مسجد سے آنے والی موذن کی اذان سنی جاتی ہے لہذا رمضان کے خصوصی شوز اور خصوصی نشریات سب کے لئے اہمیت کا بااعث ہوتی ہیں“
رمضان شوز کے درمیان آنے والے ’کمرشل بریک‘ کی بات کریں تو وہاں بھی رمضان کا رنگ نمایاں نظر آتاہے۔ ہر پروڈکٹ کی خصوصی رمضان اشتہاری مہم چل رہی ہے۔ ہر اشتہار سے کوئی نہ کوئی رمضان اسکیم جڑی ہے۔ کسی نے پروڈکٹ کی قیمت کم کردی ہے تو کسی کی آفر انعامی ہوگئی ہے۔ گھی کے ساتھ چمچہ اور مصالحے کے ساتھ چھری فری ہے۔ ”بائے ون ۔۔گیٹ ون فری “ اسکیمیں زوروں پر ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ رمضان کے آخر میں یہی اشتہاری مہمات عید کمپین میں بدل جائیں گی۔۔۔اور اس وقت یہ چینلز ایک قلابازی کر عید کے خصوصی پروگراموں دکھانے لگیں گے اور پھر اگے چند روز میں سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔