پاکستان میں خواتین ہر شعبے میں ترقی کر رہی ہیں مگر مینجمنٹ اور انتطامی عہدوں پر ابھی خواتین کی اتنی بڑی تعداد دیکھنے میں نہیں آرہی۔ کیا اس کی وجہ امتیازی رویے ہیں یا خواتین کو ترقی کے مر حلے طے کرنے کے لئے اپنے اندر کوئی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ؟ یہ سوالات گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ نےمنیزہ ہاشمی سے کئے، جن کے بغیر پاکستان میں ٹیلی ویژن کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی ۔ منیزہ ہاشمی فیض احمد فیض کی صاحبزادی ہیں اوران دنوں ہم ٹیلی ویژن کی جنرل منیجر انٹرنیشنل افیئرز ہیں ۔
پاکستان سے واشنگٹن پہنچنے والی کچھ کم تو کچھ زیادہ ناخوشگوار خبروں کے درمیان منیزہ ہاشمی امریکہ والوں کوزندگی کے ہر شعبے میں پاکستانی خواتین کی ترقی کی داستان سنا رہی تھیں ۔ ترقی جس کی وہ خود جیتی جاگتی مثال ہیں ۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کی تاریخ 1964ء سے شروع ہوئی ، اور منیزہ ہاشمی ان چند اولین خواتین میں سے تھیں جنہوں نے آمریت اور جمہوریت کے درمیان جھولتے پاکستان کے اولین نشریاتی ادارے پی ٹی وی میں جدوجہد اور کامیابیوں کے اہم ترین دور دیکھے۔منیزہ ہاشمی وہ پہلی خاتون تھیں جو پاکستان ٹیلی ویژ ن میں پروگرام منیجر ، منیجر ایجوکیشنل ٹی وی ، جنرل منیجر پی ٹی وی لاہوراور ڈائریکٹر پروگرامز اسلام آباد کے اہم ترین انتظامی عہدوں تک پہنچیں ۔
منیزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ پاکستانی خواتین ہر شعبے میں آگے آرہی ہیں ، چھوٹے کاروبار کر رہی ہیں ، تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو لڑکیوں کے نمبر لڑکوں سے زیادہ ہیں ۔ یعنی گلاس آدھا بھرا ہوا ہے ۔پاکستانی میڈیا میں خواتین کی صورتحال کو بھی منیزہ ہاشمی بےحد حوصلہ افزا قرار دیتی ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ کمزوری صرف یہ ہے کہ خواتین ابھی میڈیا کے انتطامی عہدوں تک نہیں پہنچ سکیں کیونکہ انتظامیہ میں خواتین کے آنے سے دوسری خواتین کے لئے حالات کار بہترہوں گے ۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان میں میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کے مسائل اور مشکلات دیگر شعبوں میں کام کرنے والی خواتین سے مختلف ہیں ؟ منیزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ مجھے آج تک یاد ہے کہ چھ دسمبر 1971ء کی جنگ شروع ہوئی تو میں دفتر میں تھی ۔ میرا چھوٹا سا بچہ تھا شاید دو پونے دو سال کا ۔ ظاہر ہے بلیک آوٹ ہو گیا ، میرے شوہرمجھے لینے آئے کہ گھر چلو ، جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔ میں نے اندر آکر اپنے باس سے بات کی ، تو کہنے لگے ، ، کیوں ؟
مجھے اب ہنسی آتی ہے مگر تب میں رو پڑی تھی ۔ میں نے کہا جنگ چھڑی ہوئی ہے ، میرا بیٹا باہر ہے ۔ کہنے لگے ، بی بی نوکری پر آئی ہو ، ڈیوٹی ختم کرنے ہی جاو گی ۔ اور ا ب تو وقت ہے ، جاو فارغ کرو اپنے میاں کو ۔
وہ کہتی ہیں کہ مجھے آج تک یاد ہے اور آپ یقین جانیں ، اس بات کو کتنے سال ہو گئے ، میرا بیٹا اب تین بچوں کا باپ ہے ۔ مگر اب تک میری آنکھوں کے سامنے اس کے آنسو ہیں ، جب اس کا باپ اسے لے جاتے ہوئے کہہ رہاتھا کہ نہیں امی ساتھ نہیں آئیں گی ۔ یہ میرا پہلا سبق تھا ،کہ نہیں ایسا نہیں ہوتا ، جب نوکری پر کھڑے ہو تو نوکری پر کھڑے ہو۔ اور ڈیوٹی پوری دینی ہے ۔ تو میڈیا کاکام ایسا ہے ، وقت نہیں ہے ، اپنے لئے وقت نہیں ہے ٹائم زونز ہیں ،۔ ڈیڈ لائنز ہیں ، تو میڈیا میں زندگی مشکل تو ہے لڑکی کے لئے ، غیر شادی شدہ اور شادی شدہ کے لئے بھی ۔ لیکن اس کے پے بیک بھی ہیں ،ہاں زندگی محفوظ ہے اگر آپ ایک سکول ٹیچر ہیں ، شاید داکٹر ہیں تو ۔ لیکن ہر پروفیشن کی اپنی ڈیمانڈز ہیں ۔ آپ جان دیں گے ، وقت دیں گے اس میں تو وہ پروفیشن آپ کو اپنائے گا اور آپ سے بہت کچھ اور مانگے گا بھی۔
منیزہ ہاشمی لاہور کے ایک کالج میں جینڈر ان میڈیا کا مضمون پڑھاتی ہیں اور یکسوئی اور مقصد پر نظر کو کامیابی کا پہلا اصول قرار دیتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سبق انہوں نے بینظیر بھٹو سے سیکھا تھا ۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا تو ایمان ہے کہ اگر آپ کا کام آپ کی عبادت ہے اور آپ کو اس سے اتنا لگاؤ ہے کہ آپ اس میں ڈوب کے کام کریں گےتو کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ اس میں کامیاب نہ ہوں ۔ دیرضرور ہو جاتی ہے ، ٹائم لگتا ہے لیکن کامیابی آپ کے ساتھ رہے گی ۔ اور اگر آپ اس پر مستند ہو جائیں ، سوچ لیں کہ یہ میں نے کرنا ہے اور آپ کی وجوہات سہی ہیں ، ان میں آپ نے ڈنڈی نہیں ماری ، تو کوئی وجہ نہیں ہے آپ کامیاب نہ ہوں ۔
منیزہ پاکستان ٹیلی ویژن میں اپنے 40برسوں کے کامیاب کیرئیر کے کچھ دلچسپ واقعات دوہراتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں اس وقت پی ٹی وی لاہور کی جنرل منیجر تھی جب 12 اکتوبرہوا۔۔۔ ایک بندہ بھاگا آیا میرے پاس کہ میڈم میڈم جیپ آگئی ہے اندر ۔ میں نیچے اتری تو دو فوجی اندر آرہے تھے ۔انہوں نے پوچھا ، یہاں کا انچارج کون ہے ۔ میں نے کہا میں ہوں ، تو وہ بہت سٹپٹائے ۔ ۔ اب مڑ کے دیکھتی ہوں توکوئی بڑی بات نہیں لگتی مگر اس وقت کسی خاتون کا ایسے عہدے پر ہونا بہت بڑی بات تھی ۔تو اس پیشے میں کبھی پریشانی بھی ہوتی ہے ، خوشی بھی ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے اہم لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے ، ہم نے اسلامک کانفرنس بھی دیکھی ، فوجی اور جمہوری حکومتوں کا آنا جانا بھی دیکھا ۔پابندیوں کے دور بھی دیکھے ۔
منیزہ ہاشمی کا ایک اور تعارف پاکستان کے عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کی وراثت بھی ہے ۔ فیض کے چاہنے والےاس سال ان کی پیدائش کا سو سالہ جشن منا رہے ہیں اور منیزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ ان کے والد نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا ، اسے حاصل کرنے کی جدو جہد تبھی کامیاب ہوگی جب حالات سے مایوس ہونے کے بجائے ان کا مقابلہ کیا جائے ۔
وہ کہتی ہیں کہ میں تو پاکستان کے لئے بہت پر امید رہوں گی ۔ اور مجھے ایسے ہی رہنا ہے ۔ یہ پر امیدی میرے بڑوں نے مجھے سکھائی ہے ۔ میرے بچوں اور ان کے بچوں نے مجھے سکھائی ہے ۔ میں تو پیچھے نہ مڑ کے دیکھوں گی ، نہ کچھ اور سوچوں گی ۔۔ہاں بجلی نہیں ہے ، پانی نہیں ہے ، گیس نہیں ہوتی ، مہنگائی ہے اور شاید دنیا میں کہیں اور بھی ایسا ہو رہا ہو، جو بھی ہے مگر لیکن پھر بھی بہت سے ملکوں سے اچھا ہے پاکستان ۔ اور جو کچھ بھی ہے یہ حکومت ہماری ہے ۔ اسے ہمیں اون کرنا ہے ۔ یہ ایک جمہوری حکومت ہے ۔ ووٹ دیا ہے ہم نے انہیں ، اب پسند نہیں آرہے ، تین سال بعد ، دو سال بعد ، تو ہوتا ہے ۔ ہر جگہ ہوتا ہے ، اس ملک میں بھی ہوتا ہے ۔ بہت سے لوگ اب یہاں کے صدر کو کہہ رہے ہیں یہ کیا ہو گیا ۔ سب جگہ ہوتا ہے ۔ لیکن اونر شپ اپنے ملک کی ہم ہی نے رکھنی ہے ۔ اور صرف اسے گالی دینے سے کام نہیں چلے گا ۔