افغانستان کے لیے چین کے نمائندہ خصوصی ڈینگ شی جن خطے کی صورتحال پر پاکستانی رہنماؤں سے تبادلہ خیال کے لیے جمعے کو اسلام آباد پہنچے۔
ڈینگ شی جن کی اس عہدے پر حال ہی میں تقرری ہوئی ہے۔ انہوں نے جمعے کو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی سے ملاقات کی۔ طارق فاطمی نے خطے کے استحکام کے لیے افغانستان میں امن کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔
چین ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جولائی میں ہونے والے براہ راست مذاکرات میں معاونت کی تھی۔ طرفین کے نمائندوں کی ایک ابتدائی ملاقات چین کے شہر ارمچی میں ہوئی تھی۔ پاکستان کے شہر مری میں ہونے والی دوسری ملاقات میں امریکہ کے علاوہ چین کے نمائندے بھی مبصرین کی حیثیت سے شریک تھے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چین افغانستان میں استحکام میں گہری دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ خطے کی اقتصادی ترقی افغانستان میں امن سے منسلک ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین نے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ یعنی ایک خطہ اور ایک شاہراہ کا نیا وژن تشکیل دیا ہے جو صرف پاکستان میں اقتصادی راہداری تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد وسطی ایشیا سمیت پورے خطے کو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی، تجارت، سرمایہ کاری اور لوگوں کے باہمی روابط کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کرنا ہے۔
’’افغانستان کو وسطی ایشیا میں جانے کے لیے گیٹ وے سمجھا جاتا ہے اور وسطی ایشیا چین کا بیک یارڈ ہے۔ چین اپنے بیک یارڈ میں ترقی چاہتا ہے۔ امن کو تقویت دینا چاہتا ہے اور امن کے لیے اقتصادی ترقی بھی چاہتا ہے جو پاکستان کے ذریعے ہو گا۔ تو یہ سارا وژن سامنے رکھتے ہوئے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ چین نے افغانستان کے حوالے سے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔‘‘
پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق طارق فاطمی نے چین کے نمائندہ سے ملاقات میں کہا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور چین مشترکہ مقاصد رکھتے ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں تعمیر و ترقی میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کا خیر مقدم کیا۔
ڈینگ شی جن نے چین میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور اس مقصد کے لیے چین کی حمایت کا اعادہ کیا۔
جولائی میں طالبان کے رہنما ملا عمر کی موت کی خبر آنے کے بعد سے افغانستان میں امن کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور کی تقرری کے بعد شدت پسندوں نے افغانستان میں اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کیا ہے جس سے امن مذاکرات کی بحالی فی الوقت اور بھی مشکل نظر آتی ہے۔