رسائی کے لنکس

اُمید ہے افغان طالبان تشدد ترک کر کے امن عمل میں شریک ہوں گے: پاکستان


ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ
ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ

پاکستان کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں امن و مصالحت کا عمل افغانوں ہی کی زیر قیادت ہونا ہے اور اگر کابل حکومت چاہے گی تو پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

پاکستان نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے افغان طالبان تشدد کا راستہ چھوڑ کر اپنے ملک میں امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ ’’ہم اُمید کرتے ہیں کہ افغان طالبان تشدد کا راستہ ترک کر کے افغان باہمی امن عمل میں شرکت کریں گے۔‘‘

قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل میں بطور سہولت کار کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

واضح رہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہیں۔

افغانستان کی حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا دوسرا دور جولائی کے اواخر میں پاکستان میں ہونا تھا لیکن طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کی وجہ سے یہ عمل معطل کر دیا گیا تھا۔

لیکن ملا اختر منصور سربراہ بننے کے بعد افغان طالبان کے باہمی اختلافات اور اس دوران کابل سمیت افغانستان میں مہلک بم حملوں کی وجہ سے افغانستان کی حکومت بھی بات چیت کے عمل سے پیچھے ہٹ گئی۔

رواں ہفتے ہی افغان طالبان کے ترجمان کی طرف سے ایک بیان سامنے آیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاعمر کے بیٹے اور بھائی نے ملا منصور کی بطور افغان طالبان کے سربراہ کے حمایت کر دی ہے جس کے بعد اُن کے بقول اختلافات ختم ہو گئے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں امن و مصالحت کا عمل افغانوں ہی کی زیر قیادت ہونا ہے اور اگر کابل حکومت چاہے گی تو پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلے براہ راست مذاکرات بھی سات جولائی کو پاکستان میں ہی ہوئے جن میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک تھے۔

امریکہ بھی افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کا حامی ہے۔ پاکستانی عہدیداروں کا ماننا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کا قیام تمام فریقوں کی شمولیت سے مذاکرات ہی کے ذریعے ممکن ہے۔

XS
SM
MD
LG