رسائی کے لنکس

ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی جاری لیکن مذاکرات میں پیش رفت پر شبہات برقرار


پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد پاکستانی فوجی پہرہ دیتے ہوئے۔ 17 دسمبر، 2014ء۔ (فائل فوٹو)
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد پاکستانی فوجی پہرہ دیتے ہوئے۔ 17 دسمبر، 2014ء۔ (فائل فوٹو)

پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کو منگل کے روز پندرہ دن مکمل ہو گئے ہیں۔ پڑوسی ملک افغانستان میں حکومت کرنے والے طالبان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات دونوں فریقوں نے اس جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

تحریک طالبان پاکستان جس کو ٹی ٹی پی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، لگ بھگ دو درجن کالعدم شدت پسند گروپوں پر مشتمل ہے۔ ٹی ٹی پی کئی سالوں سے پاکستان میں سیکیورٹی فورسز اور سویلین آبادی کے خلاف مہلک دہشت گرد حملے کرتی رہی ہے۔

اس شدت پسند تنظیم کے لیڈروں اور جنگجوؤں نے پاکستانی فوج کی جانب سے کارروائی کے بعد پاکستانی سرحدی علاقوں کے اپنے محفوظ ٹھکانے چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ فوجی کارروائی کے دوران اس شدت پسند تنظیم کے ہزاروں جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔

اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اپنے محفوظ ٹھکانوں سے حملے کرتی رہی ہے، اور پاکستان نے ہمسایہ ملک کی نئی طالبان حکومت سے مدد مانگی ہے کہ اس خطرے کو روکنے میں اُس کی مدد کی جائے۔

اپنے حالیہ سرکاری دورہ پاکستان کے دوران، افغان حکومت کے وزیر خارجہ، امیر خان متقی نے اس ماہ کے اوائل میں اسلام آباد میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ان کی حکومت نے امن بات چیت کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا، جس کی بدولت عارضی جنگ بندی کا سمجھوتہ طے پایا ہے۔ متقی نے مزید تفصیل نہیں بتائی، لیکن کہا کہ انھیں اس بات کی توقع ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں تصفیہ ممکن ہو گا۔

ٹی ٹی پی کے ساتھ ملاقاتوں میں شامل پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور انھیں اس میں پیش رفت اور نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔

سیکیورٹی سے وابستہ ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے اس عمل کا آغاز کیا ہے، تاکہ یہ طے کیا جا سکے آیا ٹی ٹی پی کے شدت پسند پاکستان کے آئین کی پاسداری کے حامی ہیں، قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو اپنے کوائف جمع کراتے ہیں اور حکام کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں۔

اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی نشاندہی کی کہ ''مکالمے کو آگے بڑھانے کے لیے، یہی ہماری شرائط ہیں''۔ اہلکار نے کہا کہ انھیں اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ امن بات چیت سے متعلق گفتگو کر سکیں۔

ایک طویل عرصے سے ٹی ٹی پی یہی مطالبہ کرتی آئی ہے کہ حکومت افغانستان کی سرحد کے ساتھ تعینات اپنی فوج واپس بلائے اور علاقے کی روایتی نیم خودمختار حیثیت بحال کی جائے، جہاں کسی وقت مقامی اور غیر ملکی شدت پسندوں کے ٹھکانے ہوا کرتے تھے، جن میں افغان طالبان بھی شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی پاکستان میں بھی اپنی تشریح کے مطابق اسلامی شرعی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔

لیکن، پاکستانی عہدے دار ایسے مطالبان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ماننے سے انکار کرتے ہیں اور وہ آئین کے برخلاف کسی قسم کی مطالبے کو مسترد کرتے ہیں جس میں فوجی تعیناتی یا سرحدی اضلاع میں ان کی موجودگی جیسے معاملات شامل ہیں۔

سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول میں جان قربان کرنےوالوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کیلئےجمع ہوئے
سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول میں جان قربان کرنےوالوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کیلئےجمع ہوئے

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر،معید یوسف کے بقول، ''تیس روز کی جنگ بندی کا مقصد یہ دیکھنا ہے آیا ٹی ٹی پی سنجیدہ ہے اور اس عمل کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے''۔ انھوں نے یہ بات گزشتہ ہفتے ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے مزید کہا، ''ابھی بات چیت میں پیش رفت کے حوالے سے اس مرحلے پر کچھ کہنا درست نہ ہو گا''۔

معید یوسف نے مزید کیا کہ ''سرخ لکیریں واضح ہیں، کسی کو پاکستانی آئین کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور نہ اپنا نظام حکمرانی یا قانون مسلط کرنے یا شدت پسندانہ کارروائیوں کا پھر سے آغاز کرنے کا اختیار ہے''۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے سخت گیر ارکان ریاست کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں جنھیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا ہو گا؛ لیکن معاہدہ ہونے کی صورت میں اس کے عام ارکان کو معافی مل سکتی ہے، تاکہ وہ پاکستانی معاشرے کا حصہ بنیں اور پرامن زندگی کا دوبارہ آغاز کر سکیں۔

یہ عارضی معاہدہ 9 نومبر سے 9 دسمبر تک کے لیے نافذ کیا گیا، جس سے قبل حکومت نے شدت پسند تنظیم کے نامعلوم قیدیوں کی رہائی کی اجازت دی۔ اُس وقت ٹی ٹی پی کے ترجمان، محمد خراسانی نے اعلان کیا تھا کہ دونوں فریقوں نے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے، تاکہ مکالمے کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔

منگل کے روز ایک مختصر بیان میں، خراسانی نے ان میڈیا رپورٹس کو مسترد کیا کہ حکومت نے ان کے 100 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ انھوں نے اس بات کو بھی مسترد کیا کہ ان کے گروپ نے کسی طرح کا کوئی مطالبہ پیش کیا ہے۔

خراسانی کے بقول، ''مذاکراتی کمیٹیاں ابھی تک بات چیت کی میز پر نہیں بیٹھیں نہ ہی شرائط و ضوابط سے متعلق گفتگو ہوئی ہے۔ ٹی ٹی پی نے ابھی کوئی شرائط پیش نہیں کیں''۔

افغان طالبان کا کردار

کابل میں افغان طالبان کابینہ کے ایک سینئر رکن نے ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کی امن بات چیت کے سلسلے میں کردار اور سہولت کاری سے متعلق کچھ تفصیلات بتائی ہیں، لیکن انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی ہے تاکہ ان کی غیر جانب داری کو محفوظ رکھا جا سکے۔

طالبان عہدے دار نے کہا کہ ''دونوں فریق اس بات پر خوش ہیں کہ ہم ان مذاکرات میں ثالثی کر رہے ہیں۔ کسی کسی وقت ہم دونوں مذاکراتی فریق کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوتے ہیں، جب کہ کبھی کبھار ہم علیحدگی میں دونوں سے بات کرتے ہیں''۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ ''ہم نے پہلے ہی ٹی ٹی پی پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ پاکستان کی شرائط قبول کریں یا نہ کریں لیکن وہ مزید افغان علاقے کا استعمال نہیں کر سکتے''۔ کابینہ کے رکن نے کہا کہ اس مرحلے پر بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے دانشمندی سے کام لینا ہو گا۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ مذاکرات کے ناکام ہونے کی صورت میں آیا پاکستان کی درخواست پر وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کریں گے، طالبان راہنما نے کہا کہ ''ایک مصالحت کار کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہوگی کہ وہ ٹی ٹی پی کو نتائج کی دھمکی دے کہ ہم تمہیں باہر نکال دیں گے، تمہارے خلاف سخت کارروائی کریں گے''۔

انھوں نے کہا کہ ''ابھی بات چیت کا آغاز ہوا ہے جس میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ایک ماہ کی جنگ بندی طے ہوئی ہے''۔

ان کے مطابق، افغان طالبان کو توقع ہے کہ امن عمل مرحلہ وار ٹھوس صورت اختیار کرے گا اور جنگ بندی میں توسیع کا باعث بنے گا۔ طالبان راہنما نے کہا کہ سارے تنازعات بی الآخر بات چیت کے ذریعے ہی ختم ہوتے ہیں، '' خون کو خون سے نہیں دھویا جا سکتا''۔

جہاں تک پاکستانی اہلکاروں کا تعلق ہے، آئندہ کی پیش رفت کے بارے میں وہ شک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں، آیا مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں افغان طالبان ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن پر رضامند ہوں گے، چونکہ امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے خلاف 20 سالہ لڑائی کے دوران دونوں گروپوں کی آپس میں طویل مدت کی ساجھے داری رہی ہے۔

اہلکار اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کمزور طالبان حکومت ٹی ٹی پی جیسے شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کی استعداد نہیں رکھتی، ایسے میں جب خود انھیں افغانستان میں انسانی اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔

امریکہ اور اقوام متحدہ نے کالعدم ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

گزشتہ اگست میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغان طالبان نے ہمسایہ ملکوں اور دنیا کو کئی بار اس بات کا یقین دلایا ہے کہ کسی بھی دہشت گرد گروپ کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی جازت نہیں دی جائے گی۔

انسداد دہشت گردی کا یہ عہد طالبان کی جانب سے بین الاقوامی برادری کے مطالبات کا ایک حصہ ہے جسے پورا کرنا کابل کی نئی حکومت کے لیے لازم ہے تاکہ اسے سفارتی طور پر تسلیم کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG