بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے ایک رہنما کی پھانسی کے معاملے پر پاکستان نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئےدعویٰ کیا کہ یہ ناقص عدالتی کارروائی کا نتیجہ اور حزب مخالف کو دبانے کا اقدام ہے۔
بنگلہ دیش کی حزب مخالف کی جماعت اسلامی کے ایک اور اہم رہنما اور معروف کاروباری شخصیت میر قاسم علی کو 1971ء کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا اور حکام کے مطابق ان کی سزائے موت پر ہفتہ کو دیر گئے ڈھاکا کے قریب انتہائی سکیورٹی والی جیل میں عملدرآمد کیا گیا۔
پاکستان کی طرف سے اس سے قبل بھی جنگی جرائم کی سماعت کرنے والے خصوصی ٹربیونل کی طرف سے مجرم قرار دیئے جا نے والے متعدد افراد کو پھانسی دیے جانے کے ردعمل میں ایسے ہی بیانات دیئے جا چکے ہیں۔
وزارت خارجہ کی ویب سائیٹ پر جاری بیان میں اسلام آباد نے کہا کہ قاسم علی کی پھانسی کا اسے سخت افسوس ہوا ہے۔
بیان میں بنگلہ د یش کی خصوصی عدالت کی کارروائی کے صاف و شفاف ہونے کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ پاکستان نے بنگلہ دیش پر ایک بار پھر زور دیا کہ وہ 1974 میں طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کی پاس داری کرے جس میں یہ طے پایا تھا کہ عام معافی کے اقدام کے طور پر ایسے مقدمات کی سماعت نہیں کی جائے گی۔
پاکستان کے اس تازہ بیان پر بنگلہ دیش کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن قبل ازیں اسلام آباد کی طرف سے ایسے بیانات پر ڈھاکا کی طرف سے پاکستان سے احتجاج کیا گیا اور اسے بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا چکا ہے۔
پاکستان کے ایک معروف تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جن معاملات میں مقدمات چلا کر سزائیں دی جارہی ہیں ان کا تعلق بنگلہ دیش بننے سے پہلے سے ہے اور ان کے بقول ایسا کرنے سے نا صرف ڈھاکا اور اسلام آباد کے تعلقات میں مزید تناؤ آئے گا بلکہ یہ بنگلہ دیش کے لیے بھی کسی طور مناسب نہیں ہے ۔
" بہت سارے لوگ جو وہاں جماعت اسلامی سے وابستگی رکھتے ہیں، مذہبی جماعتیں ہیں اگر بنگلہ دیش کے عوام کا کسی مذہبی جماعت سے تعلق نا بھی ہو لیکن عوام میں انصاف کا عنصر ضرور ہوتا ہے وہ انصاف کرتے ہیں ۔ اگر معاشرہ منقسم ہو جائے جیسا کہ مجھے بنگلہ دیش نظر آتا ہے جہاں عوامی لیگ ہے، جماعت اسلامی ہے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ہے تو پھر اس کی تقسیم سے معاشرے تباہ ہوتے ہیں جس میں بدلہ انتقام نفرت تمام چیزیں آ جائیں اور یہ مجھے بنگلہ دیش میں ساری نظر آتی ہیں"۔
وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے 1971ء جنگ کے دوران جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کے لیے 2010ء میں ایک خصوصی ٹربیونل تشکیل دیا تھا جو اب تک اہم سیاسی رہنماؤں سمیت متعدد لوگوں کو سزائے موت سنا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے خصوصی ٹربیونل کی کارروائی کو انصاف کے بین الاقوامی معیار کے منافی قرار دیا جا چکا ہے جب کہ حزب مخالف اسے حکومت کی طرف سے سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کے مترادف قرار دیتی ہے۔
تاہم حکومت کا موقف ہے کہ وہ ملک کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کے دوران ہم وطنوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد اور دیگر جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہتی ہے۔