بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے رہنما کی پھانسی کے معاملے پر پاکستان اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو طلب کیا ہے۔ مطیع الرحمٰن نظامی پر سنہ 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے الزامات تھے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اسلام آباد میں بنگلہ دیش کے ایک اعلیٰ سفارت کار کو طلب کیا، جنھیں مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی پر پارلیمان کی جانب سے اتفاقِ رائے سے منظور کردہ مذمتی قرارداد حوالے کی گئی۔
کچھ ہی دیر بعد، بنگلہ دیش نے ڈھاکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کو طلب کیا، اور پاکستانی بیانات پر اُس سے شدید احتجاج کیا گیا۔
نظامی ملک کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی، جماعتِ اسلامی کے سربراہ تھے، اُنھیں بدھ کے روز علی الصبح پھانسی کی سزا دی گئی، جس سے قبل ملک کی عدالت عظمیٰ نے اُن کو پھانسی دینے کے فیصلے کو مسترد کرنے کی استدعا کو مسترد کیا جب کہ اُنھوں نے بنگلہ دیش کے صدر سے رحم کی اپیل دائر کرنے سے انکار کیا تھا۔
تہتر برس کے رہنما کو سنہ 2014 میں سزائے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اُن پر لڑائی کے دوران بڑی تعداد میں قتل، زنا بالجبر اور کچھ دانشوروں کی نسل کشی کے حوالے سے کردار ادا کرنے کا الزام تھا۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ اُسے ہلاکتوں کے اِن واقعات پر ’’سخت افسوس‘‘ ہے، اور یہ کہ ’’اُن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ پاکستان کے آئین و قوانین کی پاسداری کر رہے تھے‘‘۔
جماعت اسلامی نے پھانسی پر احتجاج کے طور پر بنگلہ دیش میں ہڑتال کی کال دی ہے۔