فلسطِین کے صدر محمود عباس نے اتوار کو کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک مجوزہ قرار داد دوبارہ پیش کرنے سے متعلق اردن کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا جائے گا۔
گزشتہ ہفتہ اس بارے میں قرارداد کو مطلوبہ حمایت حاصل نا ہو سکی۔
اردن اب بھی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے جب کہ نئے سال کے شروع پر دیگر کئی ممالک کی رکنیت مخصوص مدت پوری ہونے پر دوسرے ممالک کو منتقل ہو گئی ہے۔
فلسطینیوں کو اُمید ہے کہ ان کی مجوزہ قرارداد کے بارے میں سلامتی کونسل نئے غیر مستقل ممبر ممالک کا رویہ زیادہ ہمدردانہ ہو گا۔
اس قرارداد میں فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے انخلا اور 2017ء میں آزاد (ریاست کے قیام) کا مطالبہ شامل ہے۔ بحیثیت مستقل رکن ملک کے امریکہ کو سکیورٹی کونسل میں ’ویٹو‘ کا اختیار بھی حاصل ہے تاہم امریکہ اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دے گا جیسا کہ اس نے 30 دسمبر کو کیا تھا۔
مغربی کنارے کے شہر رملہ میں ایک ثقافتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمود عباس نے کہا کہ رکنیت حاصل کرنے کے حوالے سے فلسطینی کوششوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
عباس نے کہا کہ "ہم ناکام نہیں ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہمیں ناکام کیا۔۔۔۔۔ ہم دوبارہ اس پر غور کر رہے ہیں اور اس پر اپنے اتحادیوں اور خاص طور پر اردن سے تبادلہ خیال کریں گے، کیونکہ وہ ہمارے زیادہ قریب ہیں اور وہ ہمارا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ تیسری بار ہو یا کہ چوتھی بار ہو۔ ہم اس وقت تک اس سے دستبردار نہیں جب تک سلامتی کونسل ہمیں قبول نہیں کر لیتی"۔
اقوام متحدہ میں گزشتہ منگل کو ہونے والی رائے شماری میں فلسطینی قرارداد کے مسودے کےحق میں فرانس، روس اور چین سمیت 8 ملکوں نے ووٹ دیے جبکہ دو امریکہ اور آسٹریلیا نے مخالفت میں ووٹ دیے جب کہ پانچ ممالک غیر حاضر رہے۔
تاہم اگر دوبارہ بھی اس مسودہ قرارداد کو پیش کیا جاتا ہے تو بظاہر قرار داد کی منظوری کا کوئی امکان نہیں۔
امریکہ ان پانچ ممالک میں شامل ہے جن کو "ویٹو" کا اختیار حاصل ہے۔
فلسطین کی خود مختار انتطامیہ کے صدر محمود عباس نے جرائم کی عالمی عدالت (آئی سی سی ) سمیت بیس بین الاقوامی تنظمیوں کی رکنیت کے لیے درخواستوں پر دستخط کر دیے ہیں۔
اگر اسے جرائم کی عالمی عدالت کی رکنیت حاصل ہو جاتی ہے تو فلسطین اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات دائر کر سکے گا۔ جس کے باعث محمود عباس اور اسرائیل کے درمیان ایک ایسا تنازع شروع ہو سکتا ہے جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
’آئی سی سی‘ کو دی جانے والی درخواست کے ردعمل میں اسرائیل نے ہفتہ کو اعلان کیا کہ وہ فلسطین کے لیے جمع کیے جانے والے 12 کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کے ماہانہ فنڈز کو روک لے گا یہ عباس کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا جسے پہلے ہی پیسوں کی کمی کا سامنا ہے۔