ابھی یہ واضح نہیں کہ اتوار کو منظر عام پر آنے والی پاناما دستاویزات کے کیا دور رس نتائج برآمد ہوں گے، تاہم دنیا بھر میں حکومتوں نے ان دستاویزات سے متعلق خبروں پر متضاد رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا ہے یا ان پر تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
پاناما کی کمپنی موساک فونسیکا میں نامعلوم ذرائع نے واشنگٹن میں قائم انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نامی ایک تنظیم کو کمپنی کی ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات فراہم کی تھیں، جن سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے طاقتور ترین افراد نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے اپنا پیسہ بیرون ملک بھیج رکھا ہے۔
آئی سی آئی جے میں ان دستاویزات پر تحقیقات کی قیادت کرنے والے ول فٹزگبون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دستاویزات میں شامل 220,000 کمپنیوں کی ایک قلیل تعداد غیر قانونی یا اخلاقی طور پر مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی اور رشوت کو فروغ دینے والی ایک قلیل تعداد ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ بیرون ملک کمپنیوں اور اثاثوں کے پورے نظام کی جانچ پڑتال کی جائے۔
پاناما کی کمپنی کے شریک بانی موساک فونسیکا نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ انہوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ کمپنی پر توجہ غیر منصفانہ ہے اور اگر یہ امریکہ کی کمپنی ہوتی تو اس معاملے کو اتنی شہرت نہ ملتی۔
تاہم ول فٹزگبون کا کہنا ہے کہ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایک حیران کن تعداد میں کمپنیوں اور افراد کی طرف سے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے بیرون ملک کمپنیاں قائم کرنے کی ’’خصوصی درخواستیں‘‘ موصول ہوئیں۔
دستاویزات میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں، بیٹی مریم نواز کے علاوہ دو بیٹوں حسن اور حسین نواز کے نام شامل ہیں جنہوں نے بیرون ملک کمپنیوں کے ذریعے لندن میں جائیداد خریدی۔
تاہم پاکستان کے سرکاری عہدیداروں اور وزیراعظم کے اہل خانہ نے کسی بھی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
آئی سی آئی جے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا بھر سے 140 سیاستدانوں اور سرکاری عہدیداروں کی آف شور یعنی بیرون ملک کمپنیاں موجود ہیں۔ ان میں 12 موجودہ یا سابق عالمی رہنما شامل ہیں جن میں پاکستان اور آئس لینڈ کے وزرائے اعظم، یوکرین اور ارجنٹینا کے صدور اور سعودی عرب کے بادشاہ شامل ہیں۔
اس انکشاف کے بعد کہ آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمنڈور ڈیوڈ گنلاسن اور ان کی اہلیہ اینا نے 2007 میں برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایک آف شور کمپنی خریدی ان پر دباؤ ہے کہ وہ استعفیٰ دیں۔
وزیراعظم سگمنڈور کا مؤقف ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثوں کو چھپایا نہیں مگر جب ایک انٹرویو میں ان سے سرمایہ کاری کی نوعیت کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ انٹرویو سے اٹھ کر چلے گئے۔
پاناما کے صدر ہوان کارلوس ورالا شفافیت کے حامی ہیں اور ان کی حکومت نے ایسی کسی بھی تحقیقات کا خیر مقدم کیا ہے جن سے ملک کے مالی نظام کے غلط استعمال سے بچا جا سکے۔
بھارت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اعلان کیا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے گزشتہ سال حکومت کی طرف سے اپنے بیرون ملک خفیہ اکاؤنٹس ظاہر کرنے کی پیشکش کا فائدہ نہیں اٹھایا اب انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
یوکرین نے قانون سازوں نے بھی پارلیمان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کریں کہ صدر پیٹرو پوروشینکو نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے 2014 میں اپنی ایک کمپنی کو برٹش ورجن آئی لینڈ منتقل کیا۔
ناروے، آسٹریا اور سویڈن کے حکام نے متعدد بینکوں پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاکہ بیرون ملک کھاتے کھولنے میں ان کے کردار کا تعین کیا جا سکے جبکہ فرانس نے کہا ہے وہ فہرست میں شامل افراد کے ٹیکس کھاتوں کا جائزہ لے کر نا ادا کیے گئے ٹیکسوں پر سزاؤں کا تعین کرے گا۔
فرانس کے صدر فرانسوا اولاں نے تحقیقات کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ دستاویزات کا سامنے آنا ’’اچھی خبر ہے۔‘‘
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا ہے وہ میڈیا میں آنے والی خبروں کا جائزہ لے رہا ہے اور وہ ’’اعلیٰ سطح پر ہونے والی غیر ملکی بدعنوانی جس کا امریکہ یا امریکی مالیاتی نظام سے متعلق قابل اعتماد الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔‘‘
ادھر چین نے ملک میں اس معاملے کی خبروں کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہوئے مغربی رپورٹنگ کو غیرمغربی رہنماؤں کے خلاف متعصبانہ قرار دیا ہے۔
دستاویزات سے متعلق خبروں میں ایسی بیرون ملک کمپنیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا جو صدر شی جنپنگ اور دیگر طاقتور چینی رہنماؤں کے اہل خانہ کی ملکیت ہیں۔
چین کی حکومت نے ابھی ان الزامات کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
غیر ملکی اکاؤنٹس میں رقم رکھنا خود ایک غیرقانونی فعل نہیں مگر اسے ٹیکسوں سے بچنے اور بین الاقوامی کارباری لین دین کو آسان بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔