رسائی کے لنکس

پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں : امریکی وزیر دفاع


ہلری کلنٹن اور لیون پنیٹا واشنگٹن ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران
ہلری کلنٹن اور لیون پنیٹا واشنگٹن ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران

ہلری کلنٹن کا کہناتھا کہ ہمارے کچھ اور اہداف ہیں جن کے بارے میں ہم پاکستان سے بات چیت کررہے ہیں مثال کے طورپر حقانی وغیرہ۔

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے منگل کے روز کہاہے کہ اگرچہ پاکستانی حکومت کے حقانی نیٹ ورک سمیت اسلامی عسکریت پسندوں سے رابطے موجود ہیں لیکن امریکہ کے پاس اس ملک سے قریبی تعلقات رکھنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔ ایک اور خبر کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے حقانی نیٹ ورک کے ایک اور کمانڈر پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔

پنیٹا نے، جو دوسال تک سی آئی اے کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے بعد اب وزیر دفاع کے طورپر کام کررہے ہیں ، ان رپورٹوں پر تبصرہ کرنےسے انکار کردیا کہ پاکستان نے چین کو اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کے دوران تباہ ہونے والے انتہائی جدید امریکی ہیلی کاپٹر کے تباہ شدہ ٹکڑوں کے معائنے کی اجازت دی تھی۔

لیکن واشنگٹن کی ڈیفنس یونیورسٹی کے ایک فورم میں وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی موجودگی میں امریکی وزیردفاع نے خلاف معمول امریکہ اور پاکستان کے درمیان موجود مسائل پرکھل کر اظہار کیا۔

پنیٹا نے کہا کہ پاکستان کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات موجود ہیں ۔ پاکستان کے مغربی حصے میں موجود یہ تنظیم خود اور لشکر طیبہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں امریکی فورسز پر سرحد پار سے حملے کرتی ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ لشکرطبیہ بھارت پر حملہ کرنے والا عسکریت پسند گروپ ہے۔

امریکہ نے ان دونوں کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ ان شکایات کے باوجود کہ پاکستان نے اپنے ملک میں تعینات کیے جانے والے امریکی شہریوں کے ویزے روک رکھے ہیں ، پنیٹا نے کہا کہ اس ملک کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔

ان کا کہناتھا کہ ہمارے پاس پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہم اس علاقے میں جنگ لڑرہےہیں۔ ہم وہاں القاعدہ سے لڑ رہے ہیں اور ہماری اس کوشش میں وہ ہمیں کچھ تعاون مہیا کرسکتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان علاقے میں ایک اہم قوت رکھتا ہے ۔ کیونکہ وہ ایک جوہری طاقت ہے اور اس کے پاس جوہری اسلحہ موجودہے اور ہمیں اس کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں تحفظات ہیں ۔ چنانچہ ان تمام وجوہات کی بنا پر ہمیں پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے پڑ رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اس موقع پر کہا کہ اوباما انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت زیادہ اہم سمجھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عشروں پر محیط ان تعلقات میں، جن میں دونوں فریقوں ایک دوسرےسے جائز شکایات بھی رہی ہیں، چیلنجز کا سامنا کرناپڑاہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف واشنگٹن کی جنگ دونوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔

ہلری کلنٹن نے کہاکہ مجھےاس وقت بہت خوشی ہوئی تھی جب پاکستانی فوج نے وادی سوات میں جاکر پاکستانی طالبان کے مضبوط گڑھ کے ایک بڑے حصے کو ان سے پاک کیاتھا۔ اور اس وقت انہوں نے اپنے کچھ فوجی دستے بھارتی سرحدسے ہٹالیے تھےتاکہ پاکستانی طالبان کے خلاف لڑائی میں زیادہ وسائل مہیا کیے جاسکیں۔ اوراب جیسا کہ لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ ہمارے کچھ اور اہداف ہیں جن کے بارے میں ہم ان سے بات چیت کررہے ہیں مثال کے طورپر حقانی وغیرہ۔ اور ابھی نسبتاً یہ تھوڑے عرصے کی بات ہے، تقریباً ڈھائی سال کی، جب انہوں نے فوجی اعتبار سے اپنا رخ ان کے خلاف موڑا ہے ، جو ہمارے خیال میں ، پاکستان کے لیے ایک اندرونی خطرہ ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے وہائٹ ہاؤس کے 2001ء کے ایک ایکزیکٹو آرڈر کے تحت منگل کے روز حقانی نیٹ ورک کے ایک اہم کمانڈر ملا سنگین زدران کے امریکہ میں موجود ہر طرح کے اثاثے منجمد کردیے ہیں اور امریکیوں کو اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار کرنے سے روک دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG