رسائی کے لنکس

امریکہ: پابندی عائد کرنے پر سوشل میڈیا ایپ 'پارلر' کا 'ایمیزون' کے خلاف مقدمہ


امریکہ کے قدامت پسند حلقوں میں مقبول سماجی رابطوں کی ایپ 'پارلر' کو 'ایمیزون' نے اپنی ویب پوسٹنگ سروس سے معطل کر دیا ہے۔ تاہم 'پارلر' نے 'ایمیزون' کے اس اقدام پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

'پارلر' انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ 'ایمیزون' نے اسے اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا کر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 'پارلر' اور اس کے صارفین کے معاملات میں مداخلت کی ہے۔

'پارلر' نے قانونی نوٹس میں 'ایمیزون' پر معاہدے کی اس شق کی خلاف ورزی کا بھی الزام لگایا ہے جس کے تحت اس کی سروسز کو 'ایمیزون' کے سرورز سے منقطع کرنے کے لیے 30 دن کی مہلت ضروری ہے۔

مقدمے میں وفاقی عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایمیزون کو یہ فیصلہ واپس لینے کے لیے عبوری حکم دے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایمیزون ویب سروسز کے بغیر 'پارلر' کی بقا ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر یہ آن لائن نہیں ہو سکتی۔

سوشل میڈیا ایپ پارلر پیر کو اس وقت آف لائن ہو گئی جب 'ایمیزون' نے تشدد پر مبنی پوسٹس لگانے کا عذر پیش کرتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی تھی۔

آف لائن ہونے سے قبل پارلر کے چیف ایگزیکٹو جان ماٹزے نے 'ایمیزون' سمیت بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر 'آزادیٔ اظہار' کے خلاف جنگ کا الزام لگایا تھا۔

ٹیکنالوجی کمپنی 'گوگل' نے بھی جمعے کو اپنے ایپ اسٹور سے 'پارلر' کو ہٹا دیا تھا جب کہ 'ایپل' نے ہفتے کو 'پارلر' پر پابندی عائد کر دی تھی۔

دونوں کمپنیوں کا مؤقف تھا کہ 'پارلر' کے ذریعے امریکہ میں تشدد کو بڑوھاوا دینے اور انتشار پر مبنی مواد پوسٹ کیا جا رہا تھا۔

یہ اقدامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب چھ جنوری کو امریکی جمہوریت کی علامت کیپٹل ہل کی عمارت پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے دھاوا بول دیا تھا اور آن لائن ایپس کے ذریعے بھی تشدد کو اُکسانے کی شکایات سامنے آ رہی تھیں۔

کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کے بعد فیس بک اور ٹوئٹر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹس معطل کر دیے تھے۔

ٹوئٹر' اور 'فیس بک' کی جانب سے اپنی پالسییوں کے خلاف پوسٹس لگانے پر پابندی کے بعد حالیہ دنوں میں 'پارلر' کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ یہ ایپ دو سال قبل لانچ کی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG