بلوچستان میں امن وامان کی خراب صورت حال بالخصوص شیعہ ہزارہ برادری کے خلاف مہلک حملوں کے تسلسل پر منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اراکین نے سخت تشویش کا اظہار اور ان واقعات کی روک تھام میں ناکامی پر صوبائی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
حزب اختلاف کے علاوہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی نے بھی ایوان میں ان مذمتی اور تنقیدی تقاریر میں حصہ لیا اور بعض نے صوبائی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔
کوئٹہ سے پیپلزپارٹی کے رکن پارلیمنٹ ناصرعلی شاہ نے ایوان سے خطاب میں کہا کہ بلوچستان میں آباد شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر حالیہ مہینوں میں متعدد حملے کیے گئے لیکن ان کے بقول صوبائی حکومت نے ان افراد کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ابھی تک ضروری اقدامات نہیں کیے ہیں۔ ناصر شاہ نے بلوچستان میں امن و امان کی ابتر صورت حال پر ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔
حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے اس مسئلے پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ صرف دہشت گردی کے واقعات کی مذمت ہی نا کی جائے بلکہ ان میں ملوث شدت پسندوں کے خلاف آواز بھی بلند کی جائے اور اُنھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
وفاقی وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بلوچستان کی صورت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’صوبائی حکومت کو فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات کرنا ہیں۔ یہ دہشت گردوں کی بدلتی ہوئی شرارتیں ہیں اور ان کا نیا طریقہ کار ہے۔ خودکش حملوں اور میگا ٹارگٹ کی بجائے اب (دہشت گرد) انفرادی ٹارگٹ پر آ گئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی ہے اور اس کے لیے صوبائی حکومت کی استعداد کار کو بڑھانا ہے، وزارت داخلہ اس پر کام کررہی ہے مجھے امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔‘‘
بلوچستان میں حالیہ مہینوں میں ہزارہ برادری پر مشتبہ سنی انتہا پسندوں نے تواتر سے حملے کیے ہیں جن میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ منگل کو کوئٹہ میں کیے گئے تازہ حملے میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے جب کہ اس سے قبل عید الفطر کے روز بھی نماز عید کے موقع پر ایک طاقتور بم دھماکے میں ہزارہ برادری کے دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔