|
اسلام آباد -- قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ سے حیران کن معلومات سامنے آ رہی تھیں۔ کچھ دیر تو ان پر یقین کرنا مشکل تھا۔ لیکن پھر اتحادی حکومت میں شامل وزرا سمیت کئی ارکان اسمبلی نے ان معلومات کو درست قرار دیا۔
ان حکومتی شخصیات نے تصدیق کی کہ پارلیمان سے چھ ترمیمی بل منظور ہوں گے جن میں افواج سے متعلق تین جب کہ عدلیہ کے حوالے سے تین بل شامل ہیں۔
یہی وجہ تھی کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی کرنا پڑا۔
پارلیمان میں ایسا ہوتا ہے جب کوئی قانون سازی ہو، بجٹ کی منظوری یا وزیرِ اعظم کا انتخاب ہو تو پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل اس طرح کے اجلاس بلائے جاتے ہیں۔
میں نے اپنے ساتھی رپورٹر عاصم علی رانا کو کہا کہ ہم جس موضوع پر لائیو کرنے کا سوچ رہے ہیں شاید اس سے بڑا کام ہونے جا رہا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس جمعے کے بعد پیر شام پانچ بجے تک ملتوی ہوا تھا۔ پھر اسپیکر ایاز صادق نے شام پانچ بجے کے اجلاس کا وقت تبدیل کر کے شام چار بجے کر دیا تھا۔
اسی طرح ساڑھے چار بجے سینیٹ کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کر کے شام چھ بجے کیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اپنے وقت پر تو شروع نہ ہو سکا البتہ دو گھنٹے 40 منٹ کی تاخیر سے 6 بج کر 40 منٹ پر اس کا آغاز ہوا۔
اجلاس کی کارروائی شروع ہوتے ہی وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے وقفۂ سوالات کو مؤخر کرنے کی تحریک پیش کی۔
قومی اسمبلی کے چار نومبر کے اجلاس کا سات نکاتی ایجنڈا جاری ہوا تھا۔ مگر صرف سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پیش کرنے کے بعد حکومت کے ضمنی ایجنڈے پر کارروائی شروع ہوئی تو اپوزیشن کے اراکین نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے حزبِ اختلاف کے اراکین اپنی نشستوں پر ہی ڈیسک بجا کر احتجاج کرنے لگے۔ اسی دوران جب وزیرِ اعظم ایوان میں آئے تو اپوزیشن نے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
ایک طرف قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کا احتجاج ہو رہا تھا۔ تو دوسری جانب حکومت ضمنی ایجنڈے میں شامل چھ ترمیمی بل تیزی سے منظور کرانا چاہ رہی تھی۔
وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سب سے پہلے سپریم کورٹ میں ججوں کا تعداد بڑھانے کا بل پیش کیا۔
انہوں نے ایوان کو آگاہ کیا کہ اس بل کے ذریعے سپریم کورٹ میں ججوں کے تعداد کو 17 سے بڑھا کر 34 کی جا رہی ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 16 جج ہیں۔ پہلے مرحلے میں سپریم کورٹ میں چھ سے آٹھ ججوں کی ضرورت ہوگی۔ مگر وقت کے ساتھ سپریم کورٹ میں ججوں کا تعداد 34 تک پہنچے گی۔
وزیرِ قانون نے یہ تفصیلات شدید شور، ہنگامے اور نعروں کی گونج میں کانوں پر ہیڈ فون لگا کر پیش کیں جس کے بعد وزیر قانون نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کا تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کرنے کا بل پیش کیا۔
عدلیہ سے متعلق جب تینوں بل پیش ہو گئے۔ تب اسپیکر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر بات کرنا چاہ رہے تھے۔
تو اس موقع پر وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے اسپیکر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ حزبِ اختلاف کو پہلے ہماری تقاریر سنے گی، پھر یہ بھی بات کر سکتے ہیں۔ مگر یہ ہماری تقاریر نہیں سنے گی۔ آپ بلوں کی منظوری کے لیے ووٹنگ کرا دیں ۔
اسپیکر نے اپوزیشن سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ حکومتی اراکین کو سنیں گے تو یہ بھی آپ کو سنیں گے۔
اس دوران اپوزیشن نے احتجاج جاری رکھا تو وزیرِ قانون نے کہا کہ اسپیکر بلوں پر ووٹنگ کرا دیں۔
اس طرح سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کا بل آٹھ منٹ میں کثرت رائے سے منظور کر لیا تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کے بل چھ منٹ میں منظور کر لیے گئے۔
آرمی چیف سمیت فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان کی مدتِ ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کے لیے تین بل ایوان میں پیش کیے گئے۔
وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کا بل، پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی ایکٹ 1961 میں ترمیم کا بل پیش کرنے کے لیے ایوان کے قواعد معطل کر کے ان کو منظور کرنے کی تحریک پیش کی۔
اسی طرح تینوں سروسز چیف کی مدتِ ملازمت بڑھانے کے بل سات منٹ کے مختصر وقت میں منظور کرا لیے گئے۔
خواجہ آصف عمومی طور پر ایوان میں ہمیشہ دھواں دار تقاریر کرتے ہیں۔ تاہم پیر کو انہوں نے نہ تو تقریر کی اور نہ ہی بل کے تفصیلات کے بارے میں کوئی لفظ کہا۔
خواجہ آصف بھی اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامے کے باعث کانوں پر ہیڈ فون لگا کر بل پیش کرتے رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ترمیمی بلوں کی حمایت میں ووٹ دینے والے اراکین کو بلوں پر بحث کرنے کا موقع ملنا تو دور کی بات ہے، ان کو پڑھنے کا بھی وقت نہیں ملا۔
حکومتی اراکین بلوں کو پڑھے بغیر ان کے حق میں رائے دے کر منظوری دیتے رہے۔ یہ بل ایوان کی متعلقہ کمیٹیوں کو بھی نہیں بھیجے گئے۔
اس طرح بلوں کی مخالفت کرنے والے اراکین بھی بل ملنے سے قبل احتجاج شروع کر چکے تھے۔
ایسا کم دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر بات کرنے کی اجازت مانگے تو اس کو بات کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ مگر پیر کو اپوزیشن لیڈر سمیت کسی بھی رکن کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور تیز رفتاری سے ترمیمی بلوں کو منظور کرایا گیا۔
قانون کے تحت اسپیکر پابند ہیں کہ جب کورم کی نشاندیی کی جائے تو کارروائی روک کر ایوان میں موجود ارکان کی گنتی کی جائے۔ مگر پیر کو اسپیکر نے کورم کی نشاندہی ہونے کے باوجود گنتی یہ کہہ کر نہیں کرائی کہ اتنے اراکین کی موجودگی میں کورم کو کم کیسے کہا جا رہا ہے۔
اس ساری کارروائی میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اپنی کرسی پر خاموشی سے بیٹھے رہے۔
احتجاج کے دوران جب اپوزیشن اراکین وزیرِ اعظم کی نشست کے قریب آنے لگے تو حکومتی اراکین وزیر اعظم کے سامنے آ گئے اور ان کے گرد حصار بنا لیا۔
حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان نعرے بازی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اراکین ایک دوسرے سے دست گریباں ہونے لگے۔
اسمبلی کا عملہ اگر بیچ میں نہ آتا تو اراکین میں ریسلنگ شروع ہونے کا امکان تھا۔
قومی اسمبلی نے ایک دن میں چھ ترمیمی بل صرف 27 منٹ کی کارروائی میں منظور کیے۔
حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں ماضی میں اسی انداز میں قانون سازی کا الزام پی ٹی آئی پرعائد کرکے تنقید کرتی تھیں۔
قومی اسمبلی کے پیر کو ہونے والے اجلاس میں حکمران جماعتوں کے رہنما مسلم لیگ (ن) کے میاں محمد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری شریک نہیں تھے۔
قانون سازی کے حق میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر حکومتی اتحاد کی جماعتوں کے اراکین نے ووٹ دیے۔
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کا اجلاس پریزائیڈنگ افسر عرفان صدیقی کی صدارت میں شروع ہوا۔ ایوان میں معمول کے ایجنڈا پر کارروائی جاری تھی۔ اس دوران اجلاس کی کوریج کے لیے موجود کچھ صحافیوں کا خیال تھا کہ سینیٹ سے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے چھ بلوں پر آج کارروائی نہیں ہوگی۔
کچھ صحافیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن کے لیے یہ ترامیم کی جا رہی ہیں وہ تاخیر نہیں چاہتے۔ سینیٹ سے بھی بل آج ہی منظور ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر آصف زرداری کی ذاتی دورے پر بیرونِ ملک جانے کے بعد سینیٹ کے چیئرمین قائم مقام صدر پاکستان ہیں۔ لیکن یہ معلوم نہیں کہ سینیٹ کے اجلاس کی صدارت ڈپٹی چیئرمین نے کیوں نہیں کی۔
تاہم ان صحافیوں کا اندازہ درست ثابت ہوا جن کے بقول ترمیمی بل آج ہی سینیٹ سے منظور ہونے ہیں۔
قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے چھ ترمیمی بل سینیٹ میں ایوانِ زیریں سے بھی کم وقت یعنی صرف 16 منٹ میں منظور ہوئے۔
قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی اپوزیشن نے بلوں کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ’نامنظور نامنظور‘ کے نعرے لگاتے رہے۔
دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل دستخط کے لیے قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کو ارسال کیے گئے۔
انہوں نے بھی بغیر کسی تاخیر کے ان پر دستخط کر دیے جس کے بعد یہ چھ ترمیمی بل قانون بن گئے ہیں۔