لیبیا کی دو حکومتوں میں سے ایک کی پارلیمان کے ترجمان نے کہا ہےکہ انتظامیہ نے منگل کو اپنے وزیر اعظم کو معطل کرنے اور ان کے خلاف تحقیقات کے حق میں ووٹ دیا۔ ان پر یہ الزام لگایاگیا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
فتحی باشآغا لیبیا کی مشرقی پارلیمان کے وزیر اعظم تھے، جسے ایوان نمائندگان کہا جاتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ تبروک میں قائم ہے۔ باشآغا کے ترجمان محمد منصور نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم جلد ہی منگل کے فیصلے کے حوالے سے ایک سرکاری بیان جاری کریں گے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کو بھیجے گئے ایک ریکارڈ شدہ بیان میں، پارلیمنٹ کے ترجمان، عبداللہ بیلق نے، مغربی حریف انتظامیہ کے دارالحکومت، طرابلس میں داخل ہونے کے حکومتی وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہنے پر باشآغا کو تنقید کا نشانہ بنایا
باشآغا نے، جو فروری 2022 میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے، گزشتہ مئی میں دارالحکومت میں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی کابینہ کے متعدد وزرا کے ساتھ طرابلس پہنچے لیکن حریف ملیشیاؤں کے درمیان جلد ہی جھڑپیں شروع ہو گئیں، جس کے سبب باشآغا کو جو فضائیہ کے سابق پائلٹ ہیں، سرت شہر کی طرف پیچھے ہٹنا پڑا۔
2011 کے بعد سے خانہ جنگی کا شکار لیبیا دو حریف حکومتوں کے درمیان تقسیم ہے۔ ہر ایک کو بین الاقوامی سرپرستوں اور متعدد مسلح ملیشیاؤں کی حمایت حاصل ہے۔ لیبیا کی طرابلس میں قائم حکومت کی سربراہی وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ کر رہے ہیں۔
مشرقی حصے کے ترجمان بیلق نے کہا کہ ’’ ایوان نمائندگان کے متعدد اراکین نے ایک سے زیادہ اجلاسوں میں وزیر اعظم سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم، باشآغا کی دیگر مبینہ ناکامیوں کے بارے میں بس چند ہی تفصیلات فراہم کی گئیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ایوان نمائندگان کے وزیر خزانہ اسامہ حمدا نے وزیر آعظم کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ہیں۔
تاہم، منگل کو اول وقت، باشاغا نے پارلیمنٹ میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ نائب وزیراعظم علی قطرانی کو اپنی ذمہ داریاں سونپ رہے ہیں۔ مزید تفصیلات نہیں دی گئیں۔
بیلق کی وضاحت کے باوجود، جلیل ہرچاؤئی کا،جو لیبیا کے امور کے ماہر اور رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ فیلو ہیں، خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ معطل وزیر اعظم نے خود ساختہ لیبیائی نیشنل آرمی کے کمانڈر خلیفہ ہفتر کے لیے اپنی افادیت کھو دی ہو۔ یہ گروپ ملک کے مشرق اور جنوب میں غالب مسلح قوت ہے۔
ہرچاؤئی نے کہا کہ ہفتر اور ان کا خاندان طرابلس میں مزید اثر و رسوخ کے خوہاں ہیں اور دبیبہ کے بھتیجے اور مغرب کی ملیشیاکے رہنماؤں کے ساتھ باقاعدہ بات چیت میں مصروف ہیں۔
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے، عبدولے باتھیلی نے فروری کے آخر میں نئے اقدام کا انکشاف کیا، جس کا مقصد 2023 کے اختتام سے قبل منقسم ملک میں ووٹنگ کراناتھا۔ دونوں پارلیمانوں نے ووٹ کے لیے انتخابی قانون کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق بھی کیا۔ تاہم اس کے بعد سے پیش رفت سست پڑ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی ثالثی کے ایک سابقہ عمل کے تحت 2021 کے اوائل میں دبیبہ کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کی گئی تھی - جس کا مقصد اس سال کے آخر میں ملکی انتخابات کا انعقاد تھا۔لیکن صدارتی امیدوار کی اہلیت سمیت کئی اہم مسائل پر اختلافات کے باعث یہ انتخابات کبھی نہیں ہو سکے۔
(اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے)