اقوام متحدہ کے جوہری امور کے معائنہ کاروں نے بتایاہے کہ لیبیا کے ایک ایسے مقام سے، جو حکومتی کنٹرول میں نہیں ہے، تقریباً ڈھائی ٹن خام یورینیم غائب ہو گیا ہے ۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس گمشدگی کا علم ایک معائنے کے دوران ہوا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اصل میں یہ معائنہ پچھلے سال ہونا تھا، لیکن علاقے کی سلامتی سے متعلق صورت حال کی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا تھا اور بالآخر یہ معائنہ منگل کے روزکیا گیا۔
آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 10 ڈرموں میں خام حالت میں موجود یورینیم، جس کے متعلق لیبیا نے بتایا تھا کہ اسے اس مقام پر ذخیرہ کیا جا رہا ہے، وہاں موجود نہیں تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی توانائی کا ادارہ اس مقام سے یورینیم کو ہٹانے کے حالات کا تعین کرنے کے لیے مزید کارروائیاں کرے گا۔ تاہم اس جگہ کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ گمشدہ یورینیم اب کہاں ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جوہری مواد کے موجودہ مقام کے متعلق معلومات نہ ہونے سے تابکاری پھیلنے اور جوہری سلامتی کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔ بیان کے مطابق جوہری ذخیرے کے مقام تک پہنچنے کے لیے نقل و حرکت کے جدید وسائل کی ضرورت ہے۔
سن 2003 میں اس وقت کے لیبیا کے صدر معمر قذافی کی حکومت نے اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ختم کر دیا تھا، جس کے لیے اس نے یورینیم افزودہ کرنے کے لیے سینٹری فیوجز کے ساتھ ساتھ جوہری بم کے ڈیزائن کے متعلق بھی معلومات اکھٹی کی تھیں۔ تاہم اس جانب لیبیا کی پیش رفت بہت ہی معمولی نوعیت کی تھی۔
لیبیا میں 2011 میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں، جسے نیٹو کی حمایت حاصل تھی، معمر قذافی کی معزولی کے بعد بد امنی پھیل گئی تھی۔ 2014 کے بعد سے ملک کا سیاسی کنٹرول دو حریف مشرقی اور مغربی دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ان کے درمیان آخری بڑی لڑائی 2020 میں ختم ہوئی تھی۔
ایک امن منصوبے کے تحت، جسے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل تھی، 2021 کے آغاز میں عبوری حکومت قائم ہوئی جسےاسی سال دسمبر میں ہونے والے انتخابات تک قائم رہنا تھا۔ تاہم وہ انتخابات ابھی تک نہیں ہو سکے اور اس عبوری حکومت کی قانونی حیثیت بھی متنازع ہو چکی ہے۔
(اس خبر کے لیے معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)