گیارہ ستمبر کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں منفی سوچ بڑھی ہے ۔ اس تاثر نے نہ صرف ملکی معیشت کو متاثر کیا ہے بلکہ یہاں رہنے والے لوگوں بالخصوص نوجوانوں پر بھی اس کا برا اثر پڑا ہے۔ ایسے میں یہاں کے باشعور نوجوان اس تاثر کو بدلنے کے لیے فکر مند ہیں۔
ایسی ہی ایک کوشش نیشنل اکیڈمی آف یوتھ ٹرسٹ کی جانب سے بھی کی جارہی ہے جو کراچی کی ایک مقامی تنظیم ہے ۔ یہ تنظیم 100کلومیٹر لمبا ایک پیس بینر تیار کر رہی ہے ۔تاکہ اس پر ملک بھر سے نوجوان دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف اور امن کے حق میں اپنے تاثرات درج کرسکیں۔
ثمینہ عابد اس تنظیم کی صدر ہیں اور ان دنوں اپنی ٹیم اور اس بینر کے ساتھ ملک کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی صوبہ سرحد پہنچی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ سلسلہ کراچی سے شروع کیا گیا لیکن دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر سرحد کے لوگ ہیں اور اس سلسلے میں ان کی رائے بہت اہم ہے۔واضح رہے کہ یہ بینر ابھی مکمل نہیں ہے لیکن اس تنظیم نے اسے ملک کے مختلف حصوں میں لے جاکر نوجوانوں سے پیغامات لینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ ثمینہ کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم متاثرہ علاقوں میں بھی جانا چاہتی ہے تاکہ وہاں کے عام لوگوں اور طلباکی رائے دنیا کے سامنے آئے کہ یہاں دہشت گرد نہیں بلکہ پرامن پاکستانی رہتے ہیں۔
فرح پشاور کی فرنٹئیروومن یونی ورسٹی میں فرسٹ ائیر اکنامکس میں زیر تعلیم ہیں۔ اس بینرپر انھوں نے کیا لکھا ہے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا” میں نے لکھا ہے کہ مجھے پختون ہونے پر فخر ہے اور ہم پختون امن کے طلب گار ہیں۔غلط کام کرنے والے ہر جگہ ہیں اور ہم ان سب کے خلاف ہیں۔ “ فائنل ائیر کی طالبہ جویریہ بتاتی ہیں کہ ” میں نے امن کے بارے میں لکھا ہے کہ امن وقت کی ضرورت ہے۔ “ وہ کہتی ہیں کہ نوجوان دہشت گردی کو روکنے اور اس سلسلے میں لوگوں میں آگاہی پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں کھلونا نہ بنیں خود کو بچائیں۔
واضح رہے کہ صوبہ سرحد میں اس پیس بینر کی آخری منزل سوات ہوگی جہاں علاقے کے امن کو بحال کرنے کے لیے گذشتہ سال عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پرفوجی کارروائی کی گئی اور بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ثمینہ عابد کا کہنا ہے کہ 23 مارچ کو پیس بینر اسلام آباد پہنچے گا جہاں اسے عام لوگوں کے دیکھنے کے لیے رکھا جائے گا۔ ان کے بقول بینرتقریباً 20 کلومیٹر سے اوپر ہوگیا ہے اور اب تک تقریباً 15 سے 16 لاکھ نوجوان اس پر اپنے تاثرات درج کرچکے ہیں۔
تنظیم کی صدر ثمینہ نے بتایا کہ اس بینر کا آغاز مارچ 2008 ء میں ہوااورجس بچے نے اس بینر کوشروع کیاوہ خود کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں دہشت گردی کا شکار ہوکر ٹارگٹ کلنگ میں جاں بحق ہوگیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔
ان کے بقول اس پیس بینر پر درج تحریریں پاکستانی نوجوان اور طلبا کا دنیا کے لیے پیغام ہے کہ ہم دنیا کی سب سے امن پسند قوم ہیں جواپنے ملک سمیت دنیا بھر میں استحکام اور ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔