دنیا بھر میں ضرورت مند کمیونٹیز کی خدمات سرانجام دینے والی یوایس پیس کور کی بنیادآج سے پچاس سال پہلے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے رکھی کی تھی ۔اس کے بعد سے اس تنظیم سے وابستہ لگ بھگ دو لاکھ رضاکار دنیا بھر میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ایلکس گارڈن نے 1990ء کی دہائی کےآغاز میں پیس کور کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ آج انھوں نے اس وقت کی یادگار چیزیں سنبھال کر رکھی ہیں جب وہ پیراگوئے کے ایک دیہی علاقے میں ایک سکول تعمیر کر رہے تھے۔
ایلکس کا کہنا ہے کہ پیس کور کے لیے کام کرنا ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تجربہ آپ کو اعتماد دیتا ہے کہ آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔جیسا کہ ایک دفعہ پھر سے وہ سب کرنا، 20 سال بعد آج پھر ایلکس رضاکارانہ طور پر کام کرنے جا رہے ہیں، اور اس دفعہ منزل ہے لائبیریا۔
امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے 1961 میں امریکی پیس کور قائم کی تھی ۔ انھوں نے اس وقت وہائٹ ہاؤس میں مدعو رضاکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جن ملکوں میں مدد کے لیے جائیں گے وہاں امریکہ کی ساکھ ان کے کردار سے مشروط ہوگی۔
اس وقت سے لے کر اب تک 2 لاکھ سے زیادہ رضاکار دنیا کے مختلف ملکوں میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ انہی رضاکاروں میں ایک آرون ولیمز ہیں جو آج پیس کور کے ڈائریکٹر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں، ان ملکوں کے راہنماوں سے ملتا ہوں جہاں پیس کور کام کر چکی ہے۔ وزرائے اعظم، صدور، اسمبلی ممبرز اور لیڈرز، جو پیس کورکے رضاکاروں سے کئی سال پہلے مل چکے تھے، ان کے لیے یہ ایک اچھا تجربہ تھا اور وہ ان سے متاثر ہوئے۔
پیس کورکے حامیوں کا کہنا ہے کہ پیس کور امریکہ کے بارے میں بیرون ملک اچھی رائے بہت تھوڑے خرچ میں پورا کرتی ہے، لیکن صدر اوباما نے اپنی صدارتی مہم کے دوران پیس کور کا حجم بڑھانے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور کانگریس اس وقت اس تنظیم کے بجٹ میں کروڑوں ڈالر کی کٹوتی چاہتی ہے۔تاہم اس کے باوجود رضاکاروں کی تعداد میں کمی نہیں آئی ۔
سپریا شا جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں طالب علم ہیں ۔ وہ پیس کور میں اپنی تعیناتی کا انتظار کر رہی ہیں اور مقامی کمیونٹی کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کر رہی ہیں۔
ان کاکہنا ہے کہ افریقہ میں ایک حالیہ واقعے میں ایک خاتون رضاکار پر ہونے والے حملے اور قتل کی خبروں کے باوجود وہ کہیں بھی جانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ایک خاتون کے لیے تو کہیں بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
ان کے دوست میٹ فرینکولینو بھی ایک رضاکار ہیں۔ انھوں نے پچھلے سال کچھ عرصہ پیس کور میں جانے کی تیاری کے سلسلے میں مغربی افریقہ کے ایک دیہی علاقے میں پانی اور بجلی کے بغیر گزاراکیا ۔
انہوں نے بتایا کہ وہ میری زندگی کے بہترین دو مہینے تھے۔ میں خود حیران تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ میرے پاس ٹیلی فون نہیں تھا، کمپیوٹر نہیں تھا اور مجھے احساس ہوا کہ زندگی میں اور بھی بہت سی اہم چیزیں ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔
پیس کور کے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ پسماندہ علاقوں میں وہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ انہی کی طرح رہنا ایسی منفرد عمل ہے جو پیس کور کو دوسری سماجی خدمت کی تنظیموں سے مختلف بناتی ہے۔