امریکہ میں سات دسمبر کو دوسری جنگ عظیم کے دوران پرل ہاربر پر جاپان کی جانب سے حملے کی 80ویں برسی منائی جا رہی ہے۔
برسی کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریب میں 101 سالہ امریکی نیوی کے سابق اہلکار ڈیوڈ رسل بھی شرکت کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سات دسمبر 1941 کو صبح سات بج کر 55 منٹ پر جاپان کی جانب سے امریکی ریاست ہوائی میں پرل ہاربر کے نیوی اڈے پر یو ایس پیسیفیک فلیٹ پر حملہ کیا گیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں 2400 نیوی اہلکار اور سولین مارے گئے تھے جب کہ ایک ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے تھے۔ حملے میں دو گھنٹے سے بھی کم دورانیے کے دوران 20 بحری جہاز اور 300 سے زائد ہوائی جہاز تباہ ہو گئے تھے۔
جب پرل ہاربر پر جاپانی بم گرنے لگے تھے تو یو ایس۔نیوی سی مین فرسٹ کلاس ڈیوڈ رسل نے سب سے پہلے یو ایس ایس اوکلاہوما پر ڈیک کے نیچے پناہ لی تھی۔
لیکن 80 برس قبل دسمبر کی اس صبح کے ایک فوری فیصلے نے ان کا ذہن بدل دیا اور ممکنہ طور پر ان کی جان بچ گئی۔
ڈیوڈ رسل نے اپنے حالیہ انٹرویو میں ماضی کی رواداد سناتے ہوئے بتایا کہ "انہوں نے جہاز کے دروازے کو بند کرنا شروع کیا اور میں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔"
بارہ منٹ کے اندر اندر ڈیوڈ رسل کا جنگی جہاز مسلسل تارپیڈو کے نتیجے میں الٹ گیا تھا۔ مجموعی طور پر اوکلاہوما جنگی جہاز کے 429 ملاح اور میرینز ہلاک ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ یہ یو ایس ایس ایریزونا جہاز سے ہونے والی 1177 ہلاکتوں کے علاوہ کسی بھی بحری جہاز سے ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں تصور کی جاتی ہیں۔
ڈیوڈ رسل سات دسمبر 1941 کو مارے جانے والے 2400 سے زیادہ امریکی فوجیوں کی یاد میں ایک تقریب کے لیے آج پرل ہاربر واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس دن امریکہ نے جنگ عظیم دوئم میں شمولیت اختیار کی تھی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس جنگ میں زندہ بچ جانے والے تقریباً 30 افراد اور 100 سابق فوجی آج صبح سات بج کر 55 منٹ پر ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کریں گے۔
زندہ بچ جانے والے گزشتہ برس کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے گھر پر ہی رہے جہاں انہوں نے لائیو اسٹریم کے ذریعے یادگاری تقریب دیکھی تھی۔
ڈیوڈ رسل وہ لمحہ یاد کرتے ہیں جب حملہ شروع ہوا تھا تو وہ جہاز کی اوپر کی طرف گئے۔ کیوں کہ انہیں طیارہ شکن بندوقیں لوڈ کرنے کی تربیت دی گئی تھی اور انہوں نے سوچا تھا کہ اگر کوئی دوسرا لوڈر زخمی ہو جائے تو وہ مدد کر سکتے ہیں۔
لیکن جاپانی ٹارپیڈو طیاروں نے پانی کے اندر تارپیڈو کا ایک سلسلہ گرایا جس نے اوکلاہوما جہاز کو ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا اور 12 منٹ کے اندر بڑا لڑاکا جہاز ڈوب گیا۔
ڈیوڈ رسل نے کہا کہ وہ تارپیڈو کی مدد سے ہمیں مارتے رہے۔ ان کے بقول انہوں نے سوچا کہ وہ کبھی نہیں رکیں گے۔
رسل کے مطابق وہ گری ہوئی الماریوں کے ارد گرد لپٹ گئے تھے جب کہ جنگی جہاز آہستہ آہستہ پانی میں الٹ رہا تھا۔
ایک بار جب وہ جہاز کی بالائی منزل پر پہنچے تو انہوں نے جہاز کے کنارے پر رینگتے ہوئے اگلے دروازے پر یو ایس ایس میری لینڈ جنگی جہاز کو دیکھا۔ وہ تیرنا نہیں چاہتے تھے کیوں کہ تیل نیچے پانی میں جل رہا تھا۔
انہوں نے چھلانگ لگاتے ہوئے میری لینڈ جہاز سے لٹکی ہوئی رسی کو پکڑ لیا تھا اور بغیر چوٹ کھائے اس میں پہنچ گئے۔
بعدازاں انہوں نے میری لینڈ جہاز کی طیارہ شکن بندوقوں کو گولہ بارود پہنچانے میں مدد کی۔
حملے ختم ہونے کے بعد ڈیوڈ رسل اور دو دیگر افراد غسل خانے کی تلاش میں فورڈ جزیرے گئے جہاں جنگی جہازوں کا مورچہ لگایا گیا تھا۔ جہاں ایک ڈسپنسری اور اندراج شدہ کوارٹر سیکڑوں زخمیوں کے لیے ایک طبی سینٹر اور پناہ گاہ میں تبدیل ہو چکے تھے۔
انہیں خوفناک طور پر جلے ہوئے ملاح دیواروں کے ساتھ لگے ملے جن میں سے بہت سے لوگ آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں مر گئے تھے۔
ڈیوڈ رسل نے کہا کہ "ان میں سے زیادہ تر سگریٹ پینا چاہتے تھے۔ اور وہ اس وقت سگریٹ نہیں پیتے تھے لیکن انہیں سگریٹ کا ایک پیکٹ اور کچھ ماچس ملے جس سے انہوں نے ان کے لیے سگریٹ جلائی۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ ان لوگوں کے لیے درد محسوس کرتے ہیں لیکن میں کچھ نہیں کر سکا بس ان کے لیے سگریٹ جلاؤ اور انہیں سگریٹ پھونکنے دو۔
ڈیوڈ رسل اب بھی سوچتے ہیں کہ وہ کتنے خوش قسمت تھے۔ وہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے اوکلاہوما جہاز کے اوپری حصے پر جانے کا فیصلہ کیوں کیا، یہ جانتے ہوئے کہ پیچھے رہ جانے والے زیادہ تر مرد دروازہ بند ہونے کے بعد باہر نکلنے سے قاصر تھے۔
بمباری کے بعد پہلے دو دنوں میں پرل ہاربر نیول شپ یارڈ کے سویلین عملے نے اوکلاہوما جہاز کے اندر پھنسے 32 مردوں کو سوراخ کے ذریعے باہر نکالا تھا۔ لیکن بہت سے مارے گئے تھے۔
مرنے والوں میں سے زیادہ تر کو گمنام ہونولولو قبروں میں دفن کیا گیا تھا جنہیں 'نامعلوم' کی شناخت دی گئی ہے۔ سن 1942 اور 1944 کے درمیان جہاز سے ہٹائے جانے کے وقت تک ان کی باقیات کی شناخت نہیں کی جا سکتی تھی۔
سن 2015 میں ڈیفنس POW/MIA اکاؤنٹنگ ایجنسی نے ڈی این اے ٹیکنالوجی اور دانتوں کے ریکارڈ کی مدد سے ان کی شناخت کی امید میں ان باقیات کے 388 سیٹ نکالے تھے۔ وہ 361 کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ ان میں ڈیوڈ رسل کے بہنوئی بھی شامل تھے۔
ڈیوڈ نے کہا کہ فائر مین فرسٹ کلاس والٹر 'بون' راجرز فائر روم میں تھے جسے تارپیڈو نے نشانہ بنایا تھا۔ فوج نے 2017 میں اس کی باقیات کی شناخت کی تھی اور اس کے بعد اسے آرلنگٹن قومی قبرستان میں دوبارہ دفن کیا گیا تھا۔
ڈیوڈ رسل 1960 میں ریٹائر ہونے تک بحریہ میں رہے۔ انہوں نے اگلی دو دہائیوں تک ایئر فورس کے اڈوں پر کام کیا جس کے بعد وہ 1980 میں ریٹائر ہوئے۔
ان کی بیوی وایلیٹ کا 22 برس قبل انتقال ہو گیا تھا اور اب وہ البانے، اوریگون میں اکیلے رہتے ہیں۔
کئی دہائیوں تک رسل نے دوسری جنگ عظیم میں اپنے تجربات کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی کیوں کہ کسی کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ لیکن پرل ہاربر کی خاص طور پر رات کے وقت کی تصاویر اب بھی انہیں پریشان کرتی ہیں۔
ان کے بقول جب وہ کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں اسپتال میں تھے تو ان سے کہا گیا کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے بارے میں بات کریں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ جب ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ یقین نہیں کرتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب لوگ اس بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔ لہذا ہم اس کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور ہم انہیں صرف وہی بتا رہے ہیں جو ہم نے دیکھا۔ آپ اسے بھول نہیں سکتے۔