امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے حکم دیا ہے کہ جنوری 2020 میں افریقی ملک کینیا میں قائم امریکی فوجی اڈے منڈا بے پر ہوئے ایک حملے کی دوبارہ تحقیقات کی جائیں۔ اس حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور تین زخمی ہوئے تھے، جبکہ کئی امریکی جنگی جہازوں کو نقصان پہنچا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، امریکی وزیر دفاع کے پریس سیکرٹری، جان کربی نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ حملے کی ابتدائی تحقیقات میں کیا کمی پائی گئی ہے، جو امریکی فوج کی افریقی کمان کی جانب سے کی گئی تھیں۔
جان کربی کا کہنا تھا کہ کینیا کے امریکی فوجی اڈے پر حملے کی دوبارہ سے آزادانہ تحقیقات معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں مدد دیں گی۔ اس حملے میں امریکی فوجی اڈے کے کئی حصوں کو نقصان پہنچا تھا۔
واضح رہے کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن جرمنی کے شہر سٹٹ گارٹ میں امریکی فوج کی افریقی کمان کے عہدیداروں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ ملاقاتیں ان کے یورپ کے وسیع تر دورے کا حصہ ہیں۔ وہ یورپ میں اپنے اتحادیوں سے مشاورت اور امریکی کمانڈروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ وہ سٹٹ گارٹ میں ہی امریکہ کی یورپی کمان کے عہدیداروں سے بھی علیحدہ ملاقات کریں گے۔
جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی افریقی کمان کی تحقیقات سے اخذ کردہ نتائج پر غور کے بعد امریکی وزیر دفاع نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ امریکی فوج کے کسی ’فور سٹار‘ جرنل کو اس نظر ثانی کے لیے منتخب کریں۔ اب اس حملے کی تحقیقات کے لئے امریکی فوج کی آرمی ٹریننگ اینڈ ڈاکٹرائن کمان کے کمانڈر جنرل پال فنک کو مقرر کیا ہے۔ جنرل فنک جنگ کا خوب تجربہ رکھتے ہیں، اور عراق اور افغان جنگ کے دوران ان کی وہاں چھ مرتبہ تعیناتی ہوئی تھی۔
کینیا کے ساحلی تفریحی مقام پر قائم اس امریکی فوجی اڈے پر 5 جنوری 2020 کو القاعدہ سے منسلک الشباب کے 20 سے 30 جنگجووں نے حملہ کیا تھا. یہ کینیا میں امریکی فوج کے خلاف الشباب کا پہلا بڑا حملہ تھا۔ حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک، تین زخمی اور چھ جنگی طیارے تباہ ہوئے تھے۔
جنوری دو ہزار بیس میں صبح سویرے کئے جانے والے اس حملے کو ناکام بنانے ، ائیر فیلڈ کی تلاشی مکمل کرنے اور اڈے کو محفوظ بنانے میں امریکہ اور کینیا کے فوجیوں کو پورا ایک دن لگ گیا تھا ۔
منڈا بے کے فوجی اڈے کو امریکی فوج سالہا سال سے استعمال کرتی رہی ہے، لیکن 2016 میں اس اڈے پر مزید فوجی، جنگی جہاز اور سازو سامان منتقل کر کے اسے ایک مکمل فضائی اڈے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ اسے الشباب کے جنگجووں کے خلاف لڑائی کے لئے ایک اہم امریکی فوجی اڈہ سمجھا جاتا ہے۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، امریکی فوج کی افریقی کمان کے ترجمان کرنل کرِس کارنز کا کہنا تھا کہ کینیا کے امریکی اڈے پر حملے کی تحقیقات پر محنت کی گئی تھی،اور کئی اقدامات بھی اٹھائے گئے تھے تاکہ ہلاک اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کے خاندانوں کو یہ تسلی دی جا سکے کہ صورت حال کو سمجھنے اور مناسب اقدامات اٹھانے کے لیے جو ممکن ہو سکتا تھا، وہ کیا گیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حملے کی تحقیقات کے وہ نتائج اور سفارشات، جن پر عمل کرنا امریکی فوج کی افریقی شاخ کے دائرہ اختیار سے باہر تھا، ان کی دوبارہ سے آزادانہ تحقیقات کے بارے میں ہم امریکی وزیر دفاع کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے نئی تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج کے بارے میں اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ جو بھی سفارشات مرتب کی جائیں گی، ان کی روشنی میں کینیا اور افریقی خطے میں امریکی فوج اپنی خامیاں دور کرنے کی کوشش کرے گی۔
واضح رہے کہ الشباب کے جنگجوں نے مبینہ طور پر صومالیہ میں اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں، اور کینیا میں ہونے والے کئی دہشت گرد حملوں کے لئے الشباب کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے۔ الشباب کے جنگجووں کو نشانہ بنانے کے لئے امریکہ نے صومالیہ کے اندر کئی فضائی حملے کئے ہیں۔ سابق امریکی انتطامیہ کے دور میں کینیا سے 700 امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جن کی زیادہ تعداد جنوری کے وسط تک کینیا سے نکل گئی تھی۔ عہدیداروں کے مطابق، اس وقت کینیا میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔
امریکی وزیر دفاع نے دنیا بھر میں امریکہ کی فوجی طاقت اورجنگ کے لیے تیار رہنے کے بارے میں نظر ثانی کا حکم دیا ہے۔