ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بعض دفعہ لوگ اس لیے بھی جھوٹ بولتے ہیں کہ لوگ انہیں سچا اور دیانتدار سمجھیں۔
یروشلم کی ہبرو یونیورسٹی کی ایک ماہر نفسيات ڈاکٹر شوہان چوشن خلیل کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اس بارے میں بہت محتاط ہوتے ہیں کہ دوسرے ان کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ وہ اپنی عزت و وقار اور بھرم قائم رکھنے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ دیانت دار، سچے اور کھرے انسان ہیں، جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کرتے، چاہے انہیں اس کے بدلے میں مالی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
وہ کہتی ہیں کہ اپنی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے بولے جانے والے جھوٹ کو خود غرضانہ جھوٹ کہتے ہیں۔
ایک سائنسی جریدے، ’ایکسپیریمنٹل سائیکالوجی‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے طالب علموں، وکیلوں اور رضاکاروں کو انٹرنیٹ کے ذریعے تجربات میں شامل کیا گیا۔
ایک تجربے میں شامل اسرائیل کے 115 وکیلوں کو بتایا گیا کہ انہیں ایک مقدمے کی تیاری کرنی ہے جس پر اندازاً 60 سے 90 گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔ انہیں اپنے کلائنٹ سے اس کا معاوضہ کیس تیار کرنے پر صرف ہونے والے گھنٹوں کے حساب سے ملے گا۔
کلائنٹ کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ اس پر کتنا وقت لگے گا اور وہ وکیل کے بتائے ہوئے وقت پر بھروسا کرتا ہے۔
وکیلوں کو دو گروپس میں تقسیم کر کے آدھے وکیلوں سے یہ کہا گیا کہ ان کا کام 60 گھنٹوں میں مکمل ہوا، جب کہ دوسرے گروپ کو بتایا گیا کہ ان کے کام پر 90 گھنٹے صرف ہوئے۔ پھر انہیں بل بھیجنے کے لیے کہا گیا۔
جس گروپ کو 60 گھنٹوں کا ٹارگٹ دیا گیا تھا، انہوں نے اوسطاً 62.5 گھنٹوں کا بل پیش کیا۔ ان میں سے 17 فی صد کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کام بہت محنت طلب تھا، بل کے معاملے پر جھوٹ بولا۔
دوسرے گروپ نے اوسطاً 88 گھنٹوں کا بل دیا جن میں سے 18 فی صد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس چیز کے پیش نظر کہ کلائنٹ یہ نہ سوچے کہ میں لالچ میں زیادہ معاوضہ مانگ رہا ہوں، کم گھنٹوں کا بل دیا ہے۔
ایک اور تجربے میں 201 امریکیوں کو شامل کیا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ وہ ایک ایسی کمپنی میں ملازم ہونے کا تصور کریں جہاں انہیں کمپنی کے لیے گاڑی چلانا پڑتی ہے۔ کمپنی مہینے میں 400 میل تک کا معاوضہ دیتی ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ کمپنی کے زیادہ تر ملازموں کا بل 280 سے 320 میل ماہانہ تک ہوتا ہے۔
پھر انہیں دو گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک گروپ سے کہا گیا کہ انہوں نے مہینے میں 300 میل اور دوسرے گروپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے 400 میل گاڑی چلائی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ کمپنی کو کتنے میل کا بل بھیجیں گے۔
300 میل والے گروپ نے اوسطاً 301 میل کا بل بھیجا؛ جب کہ 400 میل کے گروپ نے اوسطاً 384 میل کا بل دیا۔ ان میں سے 12 فی صد نے خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے کم میل رپورٹ کیے۔
ایک ایسا ہی آن لائن تجربہ برطانیہ کے 544 لوگوں پر کیا گیا، جن کے نتائج بھی اس سے ملتے جلتے تھے۔
ایک اور دلچسپ تجربے میں اسرائیل کی ایک یونیورسٹی کے 149 طالب علموں کو شامل کیا گیا اور انہیں دو گروپوں میں تقسیم کر کے ایک مقبول اور مشکل ویڈیو گیم کھیلنے کے لیے ایک مقررہ وقت دیا گیا اور بتایا گیا کہ انہیں ہر جیت پر انعام دیا جائے گا۔
ایک گروپ کو اصل ویڈیو گیم دی گئی جب کہ دوسرے گروپ کی ویڈیو گیم کو اس طرح تبدیل کر دیا گیا کہ سو فی صد کامیابی یقینی تھی۔ نتائج بڑے دلچسپ تھے۔ سو فی صد کامیابی کے گروپ میں سے 24 فی صد نے خود کا سچا ثابت کرنے کے لیے اپنی جیت کی تعداد کم بتائی، اگرچہ انہیں پتا تھا کہ اس طرح انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔