آپ اکثر ایسے لوگوں سے ملے ہوں گے جو بات کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی جنبش اور چہرے کے تاثرت کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے افراد کو اپنی بات کہتے ہوئے ہاتھوں اور چہرے کے تاثرات کا استعمال کیوں کرنا پڑتا ہے؟ کیا محض زبان سے ادا کیے گئے جملے کافی نہیں ہوتے؟ کیا اپنی بات سمجھانے کیلئے جسمانی حرکات کا سہارا لینے سے مدد ملتی ہے؟
اس بارے میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زبان اور جسمانی حرکات کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
یہ 1970 کی دہائی کی بات ہے کہ جب شکاگو یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر ڈیوڈ میکنیل پیرس میں ایک لیکچر دے رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ان کے پیچھے ایک خاتون پر پڑی جو اپنے ہاتھ اور بازوؤں کو اس انداز میں حرکت دے رہی تھی جس سے بخوبی ظاہر ہوتا تھا کہ پروفیسر موصوف جو کہہ رہے ہیں اس کی انتہائی مؤثر انداز میں ترجمانی ہو رہی تھی۔
چند لمحوں کے سکوت کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ وہ خود بول بھی رہی تھی۔ انہیں جلد ہی یہ باور ہوا کہ وہ لڑکی دراصل ایک انٹرپریٹر تھی جو ان کی کہی بات کو فرانسیسی زبان میں ترجمہ کر کے سمجھا رہی تھی۔
پروفیسر میکنیل نے اس لمحے محسوس کیا کہ زبان اور جسمانی حرکات اس قدر الگ نہیں ہوتیں جتنی وہ محسوس ہوتی ہیں۔ انہوں نے اس پر تحقیق کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
لوگ چاہے زبان سے بات کریں یا نہ کریں، وہ جسمانی حرکات سے بہت کچھ کہتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی اپنا مافی الضمیر سمجھانے کے لئے جسمانی حرکات کا استعمال کرتے ہیں جب انہوں نے پہلے کبھی انہیں دیکھا نہ ہو۔ جو لوگ پیدائشی طور پر نابینا ہوتے ہیں وہ بھی اپنی بات سمجھانے کے لئے جسمانی حرکات کا سہارا لیتے ہیں۔ پھر وہ لوگ بھی ایسا کر رہے ہوتے ہیں جو کسی سے فون پر بات کر رہے ہوں یہ جانتے ہوئے بھی دوسری طرف والا شخص انہیں دیکھ نہیں رہا ہے۔ اور جب بات کرنے کا سلسلہ کسی وجہ سے رک جاتا ہے تو جسمانی حرکات بھی بند ہو جاتی ہیں۔
یوں زبان اور جسمانی حرکات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی انگریزی میں جہاز پر کہیں جانے کا ذکر کرتا ہے یا پھر ہسپانوی زبان میں جہاز اڑنے کے بارے میں کچھ کہتا ہے تو فطری طور پر جسمانی حرکت سے اڑنے کا تاثر بھی دیتا ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسمانی حرکات زبان سے ادا کیے گئے جملوں کا ساتھ نہیں دیتیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت ہوتا ہے کہ ذہن میں کچھ اور چل رہا ہوتا ہے اور زبان سے کچھ اور بات کہی جا رہی ہوتی ہے۔
جب ہم بات کر رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنی سوچوں کو الفاظ کا روپ دیتے ہیں اور جب ہم جسمانی حرکات سے کام لے رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنے خیالات کو اپنے ہاتھوں کی حرکات سے ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم جسمانی حرکات لازمی طور پر یہ نہیں بتاتیں کہ ہم کیا سوچ رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ ہمیں سوچنے میں مدد دیتی ہیں۔