آپ کو مختلف موقعوں پر اپنے پیاروں کی طرف سے تہنیتی کارڈ تو موصول ہوتےہوں گے۔ ایسا ہی ایک کارڈ ادھیڑ عمر کے ایک جوڑے کو ان کی شادی کی بتیسویں سالگرہ پر موصول ہوا۔ بھیجنے والی کوئی اور نہیں، خود ان کی اپنی بیٹی تھی۔ تاہم وہ ہاتھ سے لکھی گئی عبارت کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ وہ اپنی بیٹی کی لکھائی سے مکمل طور پر مانوس تھے اور یہ ہاتھ سے لکھی گئی تحریر ان کی بیٹی کی لکھائی سے کہیں زیادہ خوبصورت تھی۔
یہ عقدہ کئی روز بعد کھلا کہ ان کی بیٹی نے اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کے لئے خود قلم نہیں اٹھایا تھا بلکہ یہ کام اس کے لئے ایک روبوٹ نے کیا تھا۔ یہ جان کر انہیں قدرے مایوسی اور ساتھ یہ خوشی بھی ہوئی کہ اس موقع پر ان کی بیٹی نے انہیں یاد رکھا۔
علامہ اقبال کا کہنا تھا:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مگر اب تو ڈیجیٹائزیشن کا دور ہے۔ جس نے ہماری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اب خاندان کی تصاویر کلاؤڈ پر محفوظ ہوتی ہیں۔ کھانے کی ترکیبیں بھی ایک ایپ کے ذریعے دستیاب ہیں۔ یوں ٹکنالوجی کے ذریعے روبوٹ خود کسی انسان کے لبوں کی حرکات اور اس کے ہاتھوں کی جنبش کی مکمل نقالی کر سکتے ہیں۔ گویا مشینوں کی حکومت مکمل طور پر حاوی ہوتی دکھائی دے رہی ہے چاہے اس کے لئے دل کی موت ہی کیوں نہ واقع ہو جائے۔
روبوٹ کی طرف سے ہاتھ سے لکھی تحریر کے انداز میں لکھے جانے والے تہنیتی کارڈوں کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تحریریں اس انداز میں لکھی جاتی ہیں کہ ان کے خود انسانی ہاتھوں سے لکھے جانے کا گمان ہوتا ہے۔
فینکس ایریزونا میں Handwrytten نامی کمپنی کے روبوٹ نیلی روشنائی کے پائلٹ G2 پین استعمال کرتے ہیں کیونکہ کمپنی کے مالک ڈیوڈ واچس کا خیال ہے کہ نیلی روشنائی کالی روشنائی کی نسبت زیادہ حقیقی محسوس ہوتی ہے۔
تاہم نقاد اس بات پر معترض ہیں کہ دلی جذبات کی عکاسی کرنے والی تحریریں روبوٹس کے سپرد کرنے سے ان کی تاثیر ختم ہو جائے گی۔ ییل یونیورسٹی کی سینئر لیکچرر ایلن ہینڈلر سپٹز کا کہنا ہے کہ اپنے لیے ایک روبوٹ سے تحریر لکھوانا ایک ذہین کاروباری منصوبہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے دھوکہ دیے جانے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس اس لئے خاص ہوتے ہیں کیونکہ وہ قربت کا احساس دلاتے ہی۔ کیونکہ آپ کے جسم کا ایک حصہ کاغذ کو چھو کر ایک ذاتی تعلق پیدا کرتا ہے۔
تاہم اپنے والدین کی شادی کی بتیسویں سالگرہ پر روبوٹ سے لکھے گئے کارڈ کو بھیجنے والی بیٹی شینن کا کہنا ہے کہ اس کے لئے ایک ہی بات ہے، چاہے وہ خود لکھے یا روبوٹ سے لکھوائے۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے والدین کو اس اہم موقع پر یاد رکھا۔
شادی کی سالگرہ کے دو ہفتے بعد اس جوڑے کو روبوٹ سے لکھا ایک اور کارڈ موصول ہوا جس میں ان کے بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ کو سالگرہ مبارک کہا گیا تھا۔
یوں چاہے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ہاتھ سے لکھی گئی تحریر سے مشابہ روبوٹ کے لکھے کارڈ اور ذاتی پیغامات مستقبل میں ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بن جائیں گے۔ یوں احساس مروت کو بھول جانا ہی واحد آپشن رہ جائے گا۔