پاکستان اور خاص کر کراچی میں’کینسر کی بیماری‘ سب سے سستی ہے۔ صرف ایک روپیہ دیں اور ’بیماری‘ ساتھ لے جائیں۔ زندہ رہنے کے لئے ایک روپے میں یہاں ایک روٹی نہیں ملتی۔۔لیکن، کینسر کے ہاتھوں مرنے کے لئے المونیم سے بنا ایک روپے کا ۔۔سب سے چھوٹی مالیت والا ۔۔گول سکہ ہی کافی ہے۔
سرکاری ہو۔۔پرائیویٹ ہو۔۔۔یا ملٹی نیشنل کمپنی کا آفس ۔۔۔کہیں بھی چلے جائیے، سب سے زیادہ سپاری، گٹکے اور مین پوری کے ریپر آپ کو یہاں وہاں، یا۔۔ کونے کھدروں میں پڑے مل جائیں گے۔ ایک روپے میں ملنے والی رنگین میٹھی سپاری کے رنگ برنگے ریپرز، مین پوری کی واٹرپروف تھیلیاں اور گٹکے کے کاغذ اور شاپرز اس بڑی تعداد میں اور یوں ہر جگہ اڑتے مل جاتے ہیں جیسے برسات کی پہلی بارش کے قطرے زمین پر بکھرتے نظر آتے ہیں۔
کیا امیر اور کیا غریب۔۔گٹکے، سپاری اور مین پوری کھانے والوں میں اس طرح کی تفریق نہیں۔ البتہ، جو اچھی مالی حیثیت رکھتے ہیں وہ پڑوسی ملک کے مہنگے گٹکے اور جو مالی حیثیت میں ذرا کم ہیں۔۔لیاقت آباد، گولیمار، نیوکراچی، رنچھوڑ لائن، گارڈن، گھانس منڈی، سولجر بازار، پرانا گولیمار، ناظم آباد، سرجانی ٹاوٴن میں بنے مقامی گٹکے کھاتے ہیں۔
مسلم کھتری اسپتال، گودھرا کیمپ نیوکراچی کے رہائشی اور پیشے کے اعتبار سے لکڑی کا کاروبار کرنے والے نوجوان جاوید سے جب وی او اے کے نمائندے نے گٹکا کھانے کی عادت کے حوالے سے سوال کیا تو جواب میں انہوں نے جو کچھ بتایا وہ انتہائی حیران کن اور کسی حد تک ناقابل یقین تھا لیکن جاوید یقین دلاتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا وہ سچ ہے۔
جاوید کا کہنا ہے کہ ’ہمارے علاقے میں جو گٹکا بنتا اور بکتا ہے وہ دوسرے گٹکوں کے مقابلے میں ’ذرا ہٹ کر‘ ہے۔ دوسری جگہوں پر گٹکا خشک چھالیوں، ہلکے کتھے ، ہلکے چونے اور ہلکے تمباکو کا بنا ہوتا ہے۔ لیکن، ہمارے علاقے میں جو گٹکا ملتا ہے وہ ’تر‘ ہوتا یعنی خشک نہیں ہوتا گیلا ہوتا ہے۔ خشکی سے بچانے کے لئے اس میں بار بار پتلے کھتے کا پانی ملایا جاتا ہے۔ اس میں قیمام، زعفران اور غیر ملکی تمباکو ملا کر لیا جائے تو اس کے دام کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔‘
جاوید کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے علاقے میں اس وافر مقدار میں گٹکا ملتا ہے کہ بچے، بڑے، نوجوان اور یہاں تک کہ خواتین بھی گٹکا کھاتی ہیں۔ انہی کو دیکھ دیکھ کر انہیں بھی گٹکا کھانے کی عادت پڑی۔
جاوید مزید کہتے ہیں کہ، ’بعض گٹکا کھانے والے اس میں ایک قسم کا تمباکو استعمال نہیں کرتے بلکہ بھارت میں تیار ہونے والے کئی کئی تمباکو اس میں ڈال کر کھاتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی راجا جانی (پاکستانی تمباکو کا مقامی نام) کھاتا ہے تو اس کی پانچ دس روپے میں ایک پڑیا مل جاتی ہے لیکن جو لوگ ’بابا چھاپ‘، ’تین سو‘، ’چھ سو‘ ، ’نو سو‘ اور دیگر اقسام کے تیز ذائقے والے بھارتی تمباکو ڈلواتے ہیں تو اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔‘
وائس آف امریکہ کے نمائندے کو جاوید نے مزید بتایا ’کچھ علاقوں میں گٹکے کو ’ماوہ‘ (مراد کھویا) بھی کہا جاتا ہے۔ ماوہ میں تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ کیوڑا اور چاندی کا ورق بھی ملایا جاتا ہے اور اس کی قیمت علیحدہ سے وصول کی جاتی ہے۔ کراچی کے تقریباً ہر گٹکا کھانے والے کو یہ معلوم ہے کہ شہر کے کس علاقے میں کس قسم کا گٹکا ملتا ہے ۔۔اورکون سا گٹکا کس علاقے کی کس دکان سے ملتا ہے۔‘
لوگ آسانی سے گٹکا، پان، مین پوری یا سپاری کھانا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اس سوال پر گٹکا تیار کرنے والے ایک ’کاریگر‘ نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرتے ہوئے خود کو ’سلیم‘ ظاہر کیا اور بتایا ’گٹکا جن چھالیوں سے تیار کیا جاتا ہے اس میں فنگس یعنی پھپھوندی آ جاتی ہے۔ اسے عام زبان میں’ کیڑے‘بھی کہاجاتا ہے۔ فنگس کی تیزی اور کڑواہٹ کو کم کرنے کے لئے اس میں مصنوعی کھانے کے رنگوں کی ملاوٹ کردی جاتی ہے۔ بعض اوقات قیمام اور تمباکو کا ذائقہ بھی اس کی کڑواہٹ کو چھپالیتا ہے اور چونکہ لوگ اسے کھانے اور اس کے نشے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں لہذا وہ ا ٓسانی سے اسے چھوڑ نہیں پاتے۔‘
یارو گوٹھ ،سرجانی ٹاوٴن کے رہنے والے ندیم اس حوالے سے مزید بتاتے ہیں ’بری عادتیں کچھ اس طرح لوگوں کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں کہ نقصان ہونے کے باوجود لوگ انہیں چھوڑنے اور بدلنے کو تیار نہیں ہوتے اور ہرقیمت پر جاری رکھتے ہیں۔۔ ایسی ہی نقصان دے عادت گٹکا یا مین پوری کھانے کی بھی ہے جو صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہیں لیکن پھربھی ان دونوں چیزوں کے عادی افراد انہیں چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔۔بیشتر افراد تو یہ شکایت بھی کرتے ہوئے مل جاتے ہیں کہ اگر وہ یہ چیزیں استعمال نہ کریں تو ان کا ذہن کام ہی نہیں کرتا، ان پر سستی چھائی رہتی ہے اور دماغ سن رہتا ہے۔‘
صرف کراچی کی بات کریں تو یہاں حیرت انگیز طور پر ناقص چھالیہ، غیر معیاری رنگوں اوردیگر مضر صحت اشیا سے بنائے جانے والے گٹکے اور مین پوری کے شائقین بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو یہ جاننے کے باوجود کہ گٹکا اور مین پوری کینسر جیسی مہلک بیماری کا سبب بن سکتا ہے، اپنی لت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتے۔
تین سال قبل حکومت سندھ نے گٹکے اور مین پوری کی تیاری اورفروخت پرپابندی عائد کی تھی لیکن پورے صوبے میں گٹکا اورمین پوری پان کی چھوٹی بڑی دکانوں پر بآسانی دستیاب ہے۔بڑے تو بڑے بچے اور کم عمر نوجوان بھی انہیں خریدتے ہوئے نہیں کتراتے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے ’گٹکا اور مین پوری کینسر اور منہ کی دیگر بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔طویل عرصے تک گٹکا اورمین پوری کھانے سے مسوڑوں، حلق، پھیپھڑوں، معدے اور پروسٹیٹ کینسر ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔‘
وزارت داخلہ سندھ نے نومبر 2011میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 144کے تحت گٹکے اورمین پوری کی تیاری وفروخت پر پابندی لگائی تھی لیکن اس کے باوجود ملکی اور غیر ملکی گٹکا آج بھی شہر کی لاکھوں دکانوں کی زینت بنا ہوا ہے۔
کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کے مطابق، ’ڈپٹی کمشنر سینٹرل نے گٹکے اور مین پوری کی تیاری اور فروخت کرنے والے 200افراد کو گزشتہ ہفتے ہی گرفتار کیا ہے، جبکہ وقتاً فوقتاً بھی ان کے خلاف کاروائیاں جاری رہتی ہیں۔‘
کمشنر کراچی کے بقول، انہوں نے تمام ضلعی انتظامیہ کو پان چھالیہ فروخت کرنے والی دکانوں کے خلاف کریک ڈاوٴن کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ کینسر کے پھیلاوٴ کو روکا جا سکے۔
وہ کہتے ہیں، ’نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت میں اسی وقت صحیح طور پر کمی آسکے گی جب لوگ از خود اس کی برائیوں کو سمجھیں اور ایک ذمے دار شہری ہونے کا فرض اداکرتے ہوئے اس سے اپنے اور اپنے دیگر دوست و احباب کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں ورنہ انتظامیہ ہر شخص کا ہاتھ تھام کر اسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ ممکن ہی نہیں‘۔