پاکستان میں منہ کے کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کینسر کے سب سے زیادہ مریض کراچی میں ہیں۔
ڈاوٴیونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کے شعبہ ای این ٹی کے سربراہ پروفیسر عمر فاروق کہتے ہیں "منہ کینسر کے 55فیصد واقعات صرف کراچی میں سامنے آتے ہیں، منہ کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ چھالیہ،پان اور گٹکے کا بے دریغ استعمال ہے۔ شہریوں میں گٹکا کھانے کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ چھالیہ، پان اور گٹکے میں جو مٹھاس اور رنگوں کا استعمال ہوتا ہے اس کی وجہ سے فنگس نظر نہیں آتی۔ اس زہریلی فنگس کے صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں آہستہ آہستہ پان اور گٹکے کی لت بڑھ جاتی ہےاور وقت کے ساتھ ساتھ منہ کی بیماریاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ منہ کے خطرناک کینسر کی شکل اختیار کرلیتا ہے"۔
ڈاکٹر عمر فاروق کہتے ہیں کہ"۔ چھالیہ میں پائے جانے والے فنگس سے زہریلے مواد کا اخراج ہوتا ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے ۔ ایسے میں ان لوگوں کے، جنہیں چھالیہ چبانے کی عادت ہوتی ہے ، منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، ماضی کے دور میں منہ کا کینسر کا شکار ہونےوالےافراد کی عمر یں 50 سال اوپر ہوا کرتی تھیں، مگر گٹکے اور چھالیہ کے استعمال سے اب 14 سے 15 سال کے نوجوانوں میں اس کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے"۔
پان چھالیہ کے استعمال کے ساتھ گٹکے اور مین پوری جیسی اشیاء بھی عام ہیں۔پاکستان کے ہر شہر،ہر گلی اور ہر محلے میں گٹکا اور پان کھلے عام فروخت کیاجارہاہے ہرعمر کے افراد یہاں تک کہ خواتین اور نوجوان لڑکیاں اس کا استعمال کررہی ہیں، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لوگوں میں گٹکے اور پان کی عادت پیدا ہوجاتی ہے ۔ گٹکے ، پان چھالیہ سمیت میٹھی سپاری کے نام سے رنگین چمکیلی تھیلیوں میں بکنے والی چھالیہ کے متواتر استعمال سے بھی کینسر جیسے موذی مرض پیدا ہونےکا خدشہ ہوتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اس وقت150اقسام کی میٹھی چھالیہ فروخت کی جارہی ہیں۔ جسے اسکول جانے والے بچے زیادہ شوق سے خرید تے ہیں،نوجوانوں اور خواتین میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ شربت جیسا مزہ رکھنے والی رنگ و کیمیکل سے بھری ان میٹھی سپاریوں کو "میٹھا زہر"کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
پاکستان میں منہ کا کینسر دوسرا بڑاکینسر کہلاتا ہے جس سے مرد و خواتین دونوں متاثر ہیں کیونکہ مردوں سمیت خواتین میں بھی گٹکا،تمباکو، پان چھالیہ کھانے کا استعمال بہت عام ہے۔ پوری دنیا میں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس مرض میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد منہ کے کینسر میں مبتلا ہیں جبکہ پاکستان کی آبادی کا 4سے 5فیصد حصہ اس مہلک مرض میں مبتلا ہے ۔اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو منہ کے کینسر کا شکار مریضوں کی تعداد امیں بڑے پیمانے پر اضافے کا اندیشہ ہے۔
کینسر کے مرض کی شروعات منہ کے دیگر حصوں میں بن جانے والے زخم ہیں، جس کے باعث منہ پوری طرح کھلتا نہیں ہے یہ زخم گٹکا، تمباکو ، پان چھالیہ اور مین پوری کے کھانے سے منہ کے اندرونی حصوں خصوصاً حلق میں بن جاتے ہیں۔ اگر ان زخموں اور چھالوں کا باقاعدگی سے علاج نہ ہو اور ان چھالیہ کا استعمال ترک نہ کیا جائے تو یہ کینسر کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ کینسر زدہ حصے کو آپریشن کی مدد سے منہ کے متاثرہ حصوں کا کاٹ دیا جاتا ہے اگر منہ کا کینسر بڑھ جائے تو مریض کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔
معاشرے کا سنگین المیہ ہے کہ دہشتگردی اور دیگر مسائل کیلئے تو عوام سراپا احتجاج نظر آتے ہیں مگر بیماریوں سے لبریز گٹکا، پان اور چھالیہ جیسی جان لیوا اشیاء کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی ہے۔روزانہ ہزاروں کے بجائے لاکھوں روپے کا گٹکا ملک میں کھلے عام فروخت ہورہا ہے، جس کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔
ڈاوٴیونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کے شعبہ ای این ٹی کے سربراہ پروفیسر عمر فاروق کہتے ہیں "منہ کینسر کے 55فیصد واقعات صرف کراچی میں سامنے آتے ہیں، منہ کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ چھالیہ،پان اور گٹکے کا بے دریغ استعمال ہے۔ شہریوں میں گٹکا کھانے کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ چھالیہ، پان اور گٹکے میں جو مٹھاس اور رنگوں کا استعمال ہوتا ہے اس کی وجہ سے فنگس نظر نہیں آتی۔ اس زہریلی فنگس کے صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں آہستہ آہستہ پان اور گٹکے کی لت بڑھ جاتی ہےاور وقت کے ساتھ ساتھ منہ کی بیماریاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ منہ کے خطرناک کینسر کی شکل اختیار کرلیتا ہے"۔
ڈاکٹر عمر فاروق کہتے ہیں کہ"۔ چھالیہ میں پائے جانے والے فنگس سے زہریلے مواد کا اخراج ہوتا ہے جو کینسر کا سبب بنتا ہے ۔ ایسے میں ان لوگوں کے، جنہیں چھالیہ چبانے کی عادت ہوتی ہے ، منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، ماضی کے دور میں منہ کا کینسر کا شکار ہونےوالےافراد کی عمر یں 50 سال اوپر ہوا کرتی تھیں، مگر گٹکے اور چھالیہ کے استعمال سے اب 14 سے 15 سال کے نوجوانوں میں اس کی شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے"۔
پان چھالیہ کے استعمال کے ساتھ گٹکے اور مین پوری جیسی اشیاء بھی عام ہیں۔پاکستان کے ہر شہر،ہر گلی اور ہر محلے میں گٹکا اور پان کھلے عام فروخت کیاجارہاہے ہرعمر کے افراد یہاں تک کہ خواتین اور نوجوان لڑکیاں اس کا استعمال کررہی ہیں، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لوگوں میں گٹکے اور پان کی عادت پیدا ہوجاتی ہے ۔ گٹکے ، پان چھالیہ سمیت میٹھی سپاری کے نام سے رنگین چمکیلی تھیلیوں میں بکنے والی چھالیہ کے متواتر استعمال سے بھی کینسر جیسے موذی مرض پیدا ہونےکا خدشہ ہوتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اس وقت150اقسام کی میٹھی چھالیہ فروخت کی جارہی ہیں۔ جسے اسکول جانے والے بچے زیادہ شوق سے خرید تے ہیں،نوجوانوں اور خواتین میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ شربت جیسا مزہ رکھنے والی رنگ و کیمیکل سے بھری ان میٹھی سپاریوں کو "میٹھا زہر"کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
پاکستان میں منہ کا کینسر دوسرا بڑاکینسر کہلاتا ہے جس سے مرد و خواتین دونوں متاثر ہیں کیونکہ مردوں سمیت خواتین میں بھی گٹکا،تمباکو، پان چھالیہ کھانے کا استعمال بہت عام ہے۔ پوری دنیا میں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں اس مرض میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد منہ کے کینسر میں مبتلا ہیں جبکہ پاکستان کی آبادی کا 4سے 5فیصد حصہ اس مہلک مرض میں مبتلا ہے ۔اگر اس کا سدباب نہ کیا گیا تو منہ کے کینسر کا شکار مریضوں کی تعداد امیں بڑے پیمانے پر اضافے کا اندیشہ ہے۔
کینسر کے مرض کی شروعات منہ کے دیگر حصوں میں بن جانے والے زخم ہیں، جس کے باعث منہ پوری طرح کھلتا نہیں ہے یہ زخم گٹکا، تمباکو ، پان چھالیہ اور مین پوری کے کھانے سے منہ کے اندرونی حصوں خصوصاً حلق میں بن جاتے ہیں۔ اگر ان زخموں اور چھالوں کا باقاعدگی سے علاج نہ ہو اور ان چھالیہ کا استعمال ترک نہ کیا جائے تو یہ کینسر کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ کینسر زدہ حصے کو آپریشن کی مدد سے منہ کے متاثرہ حصوں کا کاٹ دیا جاتا ہے اگر منہ کا کینسر بڑھ جائے تو مریض کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔
معاشرے کا سنگین المیہ ہے کہ دہشتگردی اور دیگر مسائل کیلئے تو عوام سراپا احتجاج نظر آتے ہیں مگر بیماریوں سے لبریز گٹکا، پان اور چھالیہ جیسی جان لیوا اشیاء کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی ہے۔روزانہ ہزاروں کے بجائے لاکھوں روپے کا گٹکا ملک میں کھلے عام فروخت ہورہا ہے، جس کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔