پاکستان فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف جب فوج میں کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو ایک موقعے پر انہیں یہ محسوس ہوا کہ وہ فوج کے اعلیٰ ترین منصب پر پہنچنے سے پہلے ہی ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔
پرویز مشرف اپنی خود نوشت 'ان دی لائن آف فائر' میں اپنے فوجی سفر کے متوقع اختتام کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، "میں نے فوج میں لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچنے کے بعد سمجھ لیا تھا کہ اسی رینک پر ریٹائرڈ ہونا ہے اور صہبا (اہلیہ) سے کہا کہ ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم یہاں تک پہنچے۔"
یہ 1997 کی بات ہے جب پاکستان فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت کو نئے چیف آف جنرل اسٹاف (سی جی ایس) کا انتخاب کرنا تھا اور پرویز مشرف کو امید تھی کہ وہ یہ عہدہ حاصل کر لیں گے۔
پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ فوج کے بیشتر آرمی افسر یہ سمجھتے تھے کہ اس عہدے کے لیے پرویز مشرف ہی موزوں اور اہل امیدوار ہیں لیکن انہیں اس وقت حیرانی اور مایوسی ہوئی جب آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے لیفٹننٹ جنرل علی قلی خان خٹک کو سی جی ایس مقرر کیا۔
پرویز مشرف کے مطابق جنرل جہانگیر کرامت انہیں ایک منجھا ہوا کمانڈر اور اسٹاف آفیسر قرار دیتے تھے لیکن جب سی جی ایس کی تقرری کا معاملہ آیا تو انہوں نے اس عہدے کے لیے علی قلی خان کا انتخاب کیا جو اس جانب اشارہ تھا کہ جہانگیر کرامت اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد علی قلی کو نیا آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔
واضح رہے کہ سینیارٹی لسٹ میں لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان پہلے نمبر پر تھے اور پرویز مشرف کا تیسرا نمبر تھا۔
اس حوالے سے پرویز مشرف اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے علی قلی خان کو ذاتی پسندیدگی کی بنیاد پر فائدہ پہنچایا تھا جس کی وجہ سے وہ سینیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر آ گئے تھے۔
پرویز مشرف اپنی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ صدرِ مملکت کو فوج کا سربراہ مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے اور علی قلی خان صدر فاروق لغاری کے کالج کے زمانے کے ساتھی تھے۔ اس لیے جنرل جہانگیر کرامت کے بعد علی قلی خان کے آرمی چیف بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔
جب پرویز مشرف کو آرمی چیف بننے کی خوش خبری ملی
"سات اکتوبر 1988 کی شب مجھے وزیرِ اعظم کے ملٹری سیکریٹری کا فون موصول ہوا اور بتایا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔"
پرویز مشرف اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے فون کرنے والے شخص کو کہا کہ وہ صبح ہوتے ہی اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب پرویز مشرف کور کمانڈر منگلا تھے اور مرکز میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت تھی۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور وہ انہیں عہدے سے ہٹا کر نیا آرمی چیف مقرر کرنےکا فیصلہ کر چکے تھے۔
پرویز مشرف وزیرِ اعظم ہاؤس سے آنے والی فون کال سے متعلق لکھتے ہیں کہ انہیں کہا گیا کہ وزیرِ اعظم آپ سے فوری ملاقات چاہتے ہیں اور آج ہی اسلام آباد پہنچیں۔ جس پر پرویز مشرف کے بقول انہوں نے کہا کہ وہ اپنے چیف کے علم میں بات لانا چاہتے ہیں لیکن انہیں کہا گیا کہ یہ بہت خفیہ ہے اور آپ آرمی چیف سے بات نہیں کر سکتے، اس لیے کسی سے بات کیے بغیر اسلام آباد پہنچیں۔
پرویز مشرف کے مطابق میں نے پوچھا کہ کیا مجھے یونیفارم میں آنا ہے؟ جس پر بتایا گیا کہ یونیفارم میں آئیں لیکن جس حد تک ممکن ہو جلد پہنچیں۔
پرویز مشرف ابھی اسلام آباد پہنچے نہیں تھے کہ انہیں ایک دوست اور خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے اس وقت کے سربراہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے فون کر کے مبارک باد دی اور کہا کہ "فوج کا نیا سربراہ بننے پر مبارک ہو۔"
پرویز مشرف کے مطابق آٹھ اکتوبر 1998 کو جب انہیں باضابطہ طور پر فوج کا نیا سربراہ بنادیا گیا تو چیف آف جنرل اسٹاف جنرل علی قلی خان نے انہیں فون کیا اور مبارک باد دیتے ہوئے بتایا کہ وہ پشاور جا رہے ہیں اور شاید پھر واپس کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔ بعدازاں علی قلی خان نے فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
اگر پرویز مشرف جنرل ضیا کے ملٹری سیکریٹری بن جاتے؟
پرویز مشرف نے تقریباً 46 برس فوج میں خدمات انجام دیں اور اپنے فوجی کریئر کے دوران انہوں نے کئی اہم عہدوں پر کام کیا۔ 1986 میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بطور انسٹرکٹر خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے آرٹلری ڈویژن کے کمانڈر کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ اس عرصے کے دوران انہیں ملک کے فوجی حکمران صدر جنرل ضیا الحق کے ملٹری سیکریٹری کے لیے بھی منتخب کیا گیا۔
پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں جنرل محمود علی درانی نے ضیا الحق کے ملٹری سیکریٹری کے لیے ان کا نام تجویز کیا تھا جس کے بعد انہوں نے کھاریاں سے اسلام آباد منتقل ہونے کے لیے تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں۔
پانچ روز گزر گئے لیکن پرویز مشرف کے بطور ملٹری سیکریٹری تقرری کا سرکاری اعلان نہیں ہوا تھا۔ پھر یہ خبریں آئیں کہ بریگیڈیئر نجیب کو اس عہدے پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
پرویز مشرف کے مطابق انہیں میجر جنرل فرخ کی تجویز پر جنرل ضیاکا ملٹری سیکریٹری نہیں لگایا گیا تھا جس پر وہ ان کے مشکور ہیں۔ ان کے بقول میجر جنرل فرخ نے انہیں فون پر بتایا تھا کہ جنرل ضیا انہیں اپنا ملٹری سیکریٹری لگانا چاہتے ہیں لیکن میں نے انہیں تجویز دی کہ پرویز مشرف ایک قابل افسر ہے اگر انہیں ملٹری سیکریٹری لگادیا گیا تو ان کا کریئر ختم ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ جنرل ضیاالحق 17 اگست 1988 کو طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کا طیارہ بہاولپور میں گر کر تباہ ہوا تھا جس میں فوج کے کئی سینئر افسر اور غیر ملکی سفیروں سمیت بریگیڈیئر نجیب بھی سوار تھے۔
پراسرار طیارہ حادثے کی وجوہ کا آج تک علم نہیں ہو سکا لیکن پرویز مشرف اپنی خوش قسمتی پر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ آرمی چیف جنرل ضیا کے ملٹری سیکریٹری کے لیے ان کا تقرر نہیں ہوا۔
وزیرِ اعظم نواز شریف سے اختلافات اور اقتدار پر قبضہ
پرویز مشرف نے فوج میں شمولیت اختیار کی تو انہیں 1965 میں پاک بھارت جنگ کا پہلا چیلنج درپیش تھا اور جب انہوں نے فوج کی کمان سنبھالی تو پہلا چیلنج کارگل کا محاذ تھا۔
بھارت کے ساتھ 1999 کے اوائل میں کارگل کی لڑائی کے بعد نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا بلکہ یہ لڑائی وزیرِ اعظم نواز شریف اور فوجی سربراہ پرویز مشرف کے درمیان کشیدگی کا باعث بھی بنی۔
کارگل کی لڑائی کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف نے اکتوبر1999 میں فوجی سربراہ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس بار انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور فوج نے وزیرِ اعظم کو ہی گھر بھیج کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے اور انہوں نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
پرویز مشرف اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی قیادت میں مسلح افواج کامیابی کی جانب گامزن تھی لیکن وزیرِ اعظم نواز شریف نے جنگ بندی کے لیے امریکہ کا دورہ کر کے فوج کے حوصلوں کو ٹھیس پہنچائی۔
دوسری جانب نواز شریف یہ بیانات دیتے رہے تھے کہ انہیں کارگل کی لڑائی سے لاعلم رکھا گیاتھا تاہم پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو کارگل جنگ پر اعتماد میں لیا گیا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف لگ بھگ نو برس تک آرمی چیف کے عہدے پر رہے اور سیاسی دباؤ کے بعد 28 نومبر 2007 کو اس عہدے سے سبک دوش ہوئے۔