پشاور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے والدین کوغداری، دہشت گردی کی مالی معاونت اور سہولت کاری کے مقدمے میں باعزت بری کردیا ہے۔
عدالت نےبدھ کو پروفیسر اسماعیل اور ان کی اہلیہ کو بری کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کر سکا۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک نے چند روز قبل مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ عدالت اس مقدمے میں نامزد گلالئی اسماعیل کو پہلے ہی مفرور قرار دے چکی ہے۔
گلالئی اسماعیل اور ان کے والدین کے خلاف چھ جولائی 2019 کو پشاور کے ایک تھانے میں مقدمہ درج ہوا تھا جس میں غداری، ریاست کے خلاف سازش ، دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد پروفیسر اسماعیل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا ان پر مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے گٹھ جوڑ کے تحت قائم ہوا تھا۔ ان کے بقول دونوں کے درمیان گٹھ جوڑ ختم ہونے کےبعد مقدمہ بھی ختم ہو گیا ۔
پروفیسر اسماعیل نے کہا کہ انہوں نے خود پر عائد تمام الزامات کو عدالت میں بے بنیاد ثابت کیا ہے جب کہ اندراجِ مقدمہ کے بعد وہ ان الزامات کر نہ صرف مقامی میڈیا بلکہ دیگر پلیٹ فارمز پر مسترد کرتے رہے تھے۔
مقدمے میں تینوں افراد پر پشاور کے سینٹ جونز چرچ پر بائیس ستمبر 2013 کو ہونے والے خود کش حملے اور 13 فروری 2015 کو حیات آباد کی ایک امام بارگاہ پر ہونے والے خودکش حملے میں ملوث مبینہ عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کا الزام لگایا گیا تھا ۔
استغاثہ کے مطابق یہ مالی معاونت بھارت کے جاسوسی اداروں کی جانب سے بینک ٹرانزیکشن کے ذریعے کی گئی تھی۔
اس مقدمے کی سماعت کبھی کبھی روز مرہ اور کبھی کبھی پروفیسر اسماعیل لے بقول ایک یا دو دن کے وقفوں سے مقرر کی جاتی تھی ۔
پروفیسر اسماعیل نے بتایا کہ ان کے خلاف سائبر کرائمز کے قانون کے تحت ایک اور مقدمہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔