پشاور ہائی کورٹ نے سماجی کارکن گلالئی اسماعيل کے والد پروفيسر محمّد اسماعيل کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی ہے۔
پروفیسر اسماعیل کی درخواستِ ضمانت پیر کو پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس قيصر رشيد نے ايک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے اور دو ضمانتيوں کے عوض منظور کی۔
سماعت کے دوران جسٹس قيصر رشيد نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کی عدالت سے غير حاضری پر ناپسنديدگی کا اظہار کيا اور اٹارنی جنرل آفس پر 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کيا ہے۔
جسٹس قیصر رشید نے آئندہ سماعت میں اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے پيش ہونے پر پابندی بھی عائد کر دی ہے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اسماعیل کے وکیل ايڈووکيٹ فضل الٰہی نے کہا کہ عدالت نے پروفيسر اسماعيل کو آئندہ محتاط رہنے کی ہدايات دی ہيں۔
ايڈووکيٹ فضل الٰہی کے بقول پروفیسر اسماعیل پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں اس لیے عدالت نے انہیں ہدایت کی ہے کہ جو باتیں ان سے منسوب کی گئی ہیں، ان سے اجتناب کریں۔
فضل الٰہی نے بتایا کہ وفاقی تحقيقاتی ادارے کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا وہ پہلے ہی انکار کر چکے ہيں۔ ان کے بقول ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ جو الزامات پروفیسر اسماعیل پر لگائے گئے ہيں آیا وہ انہوں نے کیے بھی ہیں یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پروفیسر اسماعیل نے اگر سوشل ميڈيا پر کچھ لکھا ہے تو وہ کس سوچ اور نظريے کے تحت لکھا ہے اور کیا اس پر کوئی قانونی دفعات لاگو بھی ہوتی ہیں یا نہیں۔
خیال رہے کہ پروفيسر اسماعيل کو گزشتہ ماہ پشاور ہائی کورٹ کے باہر سے اس وقت اٹھايا گیا تھا جب وہ اپنے ایک کيس کی پيروی کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔
بعد ازاں 25 اکتوبر کو وفاقی تحقيقاتی ادارے نے ان کی گرفتاری ظاہر کر دی تھی اور ان پر سائبر کرائم ايکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ ايڈيشنل سيشن جج جويريہ سرتاج نے پروفيسر اسماعيل کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی تھی۔
گزشتہ سماعت کے دوران پروفیسر اسماعیل کے وکیل فضل الٰہی ايڈووکيٹ نے وفاقی تحقيقاتی ادارے کے الزامات کو رد کرتے ہوئے عدالت میں کہا تھا کہ پروفيسر اسماعيل کے خلاف سائبر کرائم کے تحت مقدمہ بنتا ہی نہیں اور انہیں گرفتار کرنے کا مقصد گلالئی اسماعیل پر دباؤ ڈالنا ہے۔
واضح رہے کہ پروفیسر اسماعیل کی بیٹی گلالئی اسماعیل کے خلاف بھی بغاوت، غداری اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ البتہ، گلالئی اسماعیل تقریباً چار مہینوں کی روپوشی کے بعد ستمبر میں پراسرار طریقے سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں اور اب بھی وہ وہیں مقیم ہیں۔