رسائی کے لنکس

پشاور ہائی کورٹ: جنوبی وزیرستان میں داخلے کے لیے درکار خصوصی اجازت نامہ غیرقانونی قرار


جنوبی وزیرستان میں 2009 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن 'راہ نجات' کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔ (فائل فوٹو)
جنوبی وزیرستان میں 2009 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن 'راہ نجات' کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔ (فائل فوٹو)

پشاور ہائی کورٹ نے قبائلی ضلعے جنوبی وزیرستان میں انتظامیہ کی جانب سے نافذ کردہ راہداری نظام کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے وکیل سجاد احمد محسود نے آئین کے آرٹیکل 15 کے تحت انتظامیہ کے اس فیصلے کےخلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اکرام اللہ خان اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رکنی بنچ نے آئینی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنایا۔ جس کے تحت انتظامیہ کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔ فیصلے میں قرار دیا گیا کہ ملک میں کہیں بھی سفر کے لیے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہے۔

درخواست گزار سجاد احمد محسود نے درخواست میں مؤقف احتیار کیا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں داخلے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے راہداری سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ آئین نے ہر پاکستانی کو ملک میں سفر کی آزادی دی ہے۔ اس لیے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

سجاد احمد محسود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2019 کے اوائل میں جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ نے راہداری سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا تھا۔ اس راہداری یعنی اجازت نامے کےحصول کے لیے جنوبی وزیرستان کے وانا اور ٹانک کے کیمپ آفس میں خصوصی ڈیسک قائم کرکے اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ جو رشوت کی ادائیگی کے بعد یہ راہداری یا اجازت نامہ جاری کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس خصوصی اجازت نامے کی معیاد 10 دن تھی اور اس کو حاصل کرنے کے بعد نہ صرف داخلے کے وقت بلکہ جنوبی وزیرستان کے طول و عرض میں سیکیورٹی فورسز کے چوکیوں سے گزرتے وقت اس کی فوٹو کاپی جمع کرانی ضروری تھی۔

سجاد احمد کا کہنا تھا کہ یہ راہداری سرٹیفکیٹ بنوانا نہ صرف دیگر اضلاع بلکہ جنوبی وزیرستان کے مقامی باشندوں کے لیے بھی لازمی قرار دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان میں 2009 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن 'راہ نجات' کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔ 2017 اور 2018 سے ان لوگوں کی واپسی شروع ہوئی ہے۔ مگر گھروں کے تباہ ہونے کے بعد اب بھی زیادہ تر لوگ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور سمیت مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔

یہ لوگ وقتا فوقتاً جنوبی وزیرستان آتے جاتے ہیں۔ مگر راہداری کے نظام نے ان لوگوں کی اپنے علاقوں میں آمد و رفت اور سماجی رابطوں کو بھی متاثر کیا ہے۔

سجاد احمد محسود نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب لوگوں کے لیے واپس آنے جانے میں مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔

جنوبی وزیرستان کی طرح شمالی وزیرستان میں نہ صرف دیگر اضلاع بلکہ مقامی قبائل کے لیے بھی اندراج لازم ہے۔ تاہم اس اندراج کے لیے کسی قسم کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ شمالی وزیرستان کی کسی بھی سرحدی چوکی پر داخلے کے وقت قومی شناختی کارڈ کے ذریعے اندراج کروایا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG