اسلام دیگر مذاہب کے مقابلے میں جواں سال ہے۔۔ اس کے ظہور پذیر ہوئے صرف 1400 سال گزرے ہیں۔ لیکن، جس تیزی سے یہ پھیل رہا ہے، یہ رواں صدی کے دوران دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔
یہ پیشن گوئی ہے ’پیو رسرچ سنٹر‘ کے ماہر شماریات کی، جو کہتےکہ عقائد کی بنا پر اعلیٰ شرح پیدائش ان کی نمو کو تیز کرتی ہے۔
ماہ رواں کے آغاز پر جاری کردہ ’پیو رسرچ‘ کے سروے رپورٹ کی یہ ہیڈ لائین ہے جس میں مذاہب کے مستقبل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ رجحان جاری رہا، تو 2070ء میں مسیحیت پیچھے رہ جائے گی اور اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔
پیو کے ’ریلیجن اینڈ پبلک لائف پروجیکٹ‘ کے صدر دفتر میں ہونے والے حالیہ سمینار میں بحث کے دوران ماہرین شماریات کے پینل نے رپورٹ کے نتائج پر بحث کی۔
رپورٹ کے نمایاں محقیق، کونرڈ ہیکٹ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں شرح پیدائش دو اشاریہ ایک فی خاتون، جبکہ مسلم خاتون کے ہاں یہ شرح اوسطاً تین بچوں کی ہے۔ اسی دوران، مسلمانوں کی ایک تہائی پندرہ برس کی عمر میں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان آبادی میں دیگر مذاہب کے مقابلے میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو شرح نمو میں اضافہ کے اہل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافے کی شرح رکھتا ہے۔
لیکن، پیو پروجیکٹ افریقہ کے بارے میں تھا، جہاں توقع ہے کہ اس کی آبادی 2050ء تک دوگنی ہوجائے گی، یعنی ایک ارب نئے انسان جو اسلام اور مسیحیت کے ماننے والے ہوں گے۔
امریکہ میں مسلمان ایک سے لے کر دو فیصد کی شرح سے بڑھیں گے جبکہ یورپ میں اس اضافے کی شرح چھ تا دس فیصد ہوگی۔
افریقہ میں شرح پیدائش کی اعلی شرح کے باعث مسیحیت میں بھی اضافہ ہوگا اور صدی کے وسط تک ان کی تعداد میں 40 فیصد تک اضافہ ہوگا۔ ہندوازم اور یہودیت میں بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں اضافہ ہوگا۔ موجودہ بڑئے عقائد میں سے صرف بدھ مت موجودہ سطح پر ہی برقرار رہے گی، یعنی ان کی تعداد نصف ارب کے لگ بھگ ہوگی۔
برطانوی پاپولیشن اسٹیڈیز کے پروفیسر ڈیوڈ ووس کہتے ہیں کہ نتائج کو صدیوں کی بنیاد پر دیکھنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ بڑی آبادی کسی کے غلبے کی ضامن نہیں۔ بقول اُن کے، ’معاشی اور ثقافتی پیداور اہم ہے۔ ممالک عالمی معشیت اور طاقت میں تعداد کا مقابلہ اثر و رسوخ سے کرسکتے ہیں۔‘
محققین تسلیم کرتے ہیں کہ مذہبی شناخت حقیقی سائنس ہے، جس کی بنیاد پر مصر اور چین کی طرح سرکاری اعداد و شمار جاری کیا جاسکتا ہے، جہاں اقلیت کی تعداد کم بتائی جاتی ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شماریاتی رجحانات قدرتی انقلاب کی وجہ سے غیر متوقع طور پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔ لیکن، ان کا اصرار ہے کہ اعداد و شمار مذاہب کی ترقی کے بارے میں معتبر اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔
پینل میں شامل امریکی سفیر برائے مذہبی آزادی، ربی ڈیوڈ اسپرٹین کہتے ہیں کہ تحقیقی نتائج نے ایک بار پھر عقائد کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے۔