پاکستانی عوام میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے عمومی تاثر کے برعکس ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ عوام کی غالب اکثریت عالمی شدت پسند تنظیم 'القاعدہ' اور 'طالبان' کو ناپسند کرتی ہے۔
امریکی ادارے 'پیو ریسرچ سینٹر' کی جانب سے کیے جانے والے ایک حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق صرف 13 فی صد پاکستانی طالبان اور القاعدہ کی حمایت کرتے ہیں جب کہ عوام کی غالب اکثریت ان دونوں گروہوں کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتی۔
سروے کے مطابق دیگر مسلم مزاحمتی گروہوں کے لیے بھی پاکستانی عوام کی رائے کچھ اچھی نہیں۔ صرف 15 فی صد افراد فلسطینی مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے حامی ہیں جب کہ سروے کے دوران لبنان کی شیعہ تنظیم 'حزب اللہ' کی حمایت بھی صرف 15 فی صد پاکستانیوں نے کی۔
اس کے برعکس دیگر مسلم ممالک کے عوام میں ان تنظیموں کو قابلِ ذکر مقبولیت حاصل ہے۔ مصر کے 39 فی صد، تیونس کے 50 فی صد اور لبنان کے 30 فی صد عوام 'حماس' کے حامی ہیں جب کہ ان ممالک میں حزب اللہ کے لیے موجود حمایت کی شرح بھی بالترتیب 20، 46 اور 40 فی صد ہے۔
مذکورہ سروے چھ مسلم ممالک میں کیا گیا ہےجن میں ترکی، مصر، اردن، لبنان، تیونس اور پاکستان شامل ہیں۔
پاکستان کے علاوہ سروے میں شامل تمام ممالک کےعوام کی بھاری اکثریت نے جمہوریت کو اپنے لیے پسندیدہ نظام قرار دیا جب کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جمہوریت سے نالاں دکھائی دی۔
سروے کے مطابق لبنان میں جمہوریت کو پسند کرنے والوں کی تعداد84 فی صد، ترکی میں 71 فی صد، مصر میں 67 فی صد، تیونس میں 63 فی صد اور اردن میں 61 فی صد ہے۔ پاکستان میں صرف 42 فی صد افراد جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستانی عوام کی اکثریت قوانین کو اسلامی بنیادوں پر استوار دیکھنا چاہتی ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان کی 82 فی صد آبادی چاہتی ہے کہ ملکی قوانین مکمل طور پر قرآن و سنت کی بنیاد پر تشکیل دیے جائیں جب کہ 15 فی صد افراد اسلامی اصول و روایات کی روشنی میں قانون سازی کے حامی ہیں۔
اس طرح سروے کے نتائج کی روشنی میں پاکستان میں اسلامی قوانین کی حمایت کرنے والوں کی کل تعداد 97 فی صد کے لگ بھگ ہے۔
اردن میں اسلامی قوانین کی حمایت کرنے والوں کی کل تعداد 98 فی صد، مصر میں 92 فی صد، تیونس میں 87 فی صد، ترکی میں 61 فی صد جب کہ لبنان میں 52 فی صد ہے۔
سروے کے مطابق مسلم ممالک کے عوام کی اکثریت ترکی کو ایک رول ماڈل سمجھتی ہے اور موجودہ ترک حکومت کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتی ہے۔
پاکستانی عوام میں ترکی کو پسند کرنے والوں کی تعداد 64 فی صد، مصر میں 86 فی صد، اردن میں 72 فی صد، لبنان میں 59 فی صد جب کہ تیونس میں 78 فی صد ہے۔
امریکہ بدستور مسلم ممالک میں ناپسندیدہ ترین ملکوں میں سے ایک ہے اور پاکستانی عوام امریکہ کو ناپسند کرنے میں دیگر پانچوں ممالک کے عوام سے آگے ہیں۔
سروے کے نتائج کے مطابق 80 فی صد پاکستانی امریکہ کو ناپسند کرتے ہیں جب کہ ترکی میں یہ تعداد 72 فی صد، مصر میں 79 فی صد اور اردن میں 76 فی صد ہے۔ تیونس اور لبنان میں امریکہ کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات نسبتاً کم ہیں جہاں بالترتیب 45 اور 49 فی صد افراد امریکہ کے مخالف ہیں۔
امریکی ادارے 'پیو ریسرچ سینٹر' کی جانب سے کیے جانے والے ایک حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق صرف 13 فی صد پاکستانی طالبان اور القاعدہ کی حمایت کرتے ہیں جب کہ عوام کی غالب اکثریت ان دونوں گروہوں کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتی۔
سروے کے مطابق دیگر مسلم مزاحمتی گروہوں کے لیے بھی پاکستانی عوام کی رائے کچھ اچھی نہیں۔ صرف 15 فی صد افراد فلسطینی مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے حامی ہیں جب کہ سروے کے دوران لبنان کی شیعہ تنظیم 'حزب اللہ' کی حمایت بھی صرف 15 فی صد پاکستانیوں نے کی۔
اس کے برعکس دیگر مسلم ممالک کے عوام میں ان تنظیموں کو قابلِ ذکر مقبولیت حاصل ہے۔ مصر کے 39 فی صد، تیونس کے 50 فی صد اور لبنان کے 30 فی صد عوام 'حماس' کے حامی ہیں جب کہ ان ممالک میں حزب اللہ کے لیے موجود حمایت کی شرح بھی بالترتیب 20، 46 اور 40 فی صد ہے۔
امریکہ بدستور مسلم ممالک میں ناپسندیدہ ترین ملکوں میں سے ایک ہے
مذکورہ سروے چھ مسلم ممالک میں کیا گیا ہےجن میں ترکی، مصر، اردن، لبنان، تیونس اور پاکستان شامل ہیں۔
پاکستان کے علاوہ سروے میں شامل تمام ممالک کےعوام کی بھاری اکثریت نے جمہوریت کو اپنے لیے پسندیدہ نظام قرار دیا جب کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جمہوریت سے نالاں دکھائی دی۔
سروے کے مطابق لبنان میں جمہوریت کو پسند کرنے والوں کی تعداد84 فی صد، ترکی میں 71 فی صد، مصر میں 67 فی صد، تیونس میں 63 فی صد اور اردن میں 61 فی صد ہے۔ پاکستان میں صرف 42 فی صد افراد جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستانی عوام کی اکثریت قوانین کو اسلامی بنیادوں پر استوار دیکھنا چاہتی ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان کی 82 فی صد آبادی چاہتی ہے کہ ملکی قوانین مکمل طور پر قرآن و سنت کی بنیاد پر تشکیل دیے جائیں جب کہ 15 فی صد افراد اسلامی اصول و روایات کی روشنی میں قانون سازی کے حامی ہیں۔
اس طرح سروے کے نتائج کی روشنی میں پاکستان میں اسلامی قوانین کی حمایت کرنے والوں کی کل تعداد 97 فی صد کے لگ بھگ ہے۔
اردن میں اسلامی قوانین کی حمایت کرنے والوں کی کل تعداد 98 فی صد، مصر میں 92 فی صد، تیونس میں 87 فی صد، ترکی میں 61 فی صد جب کہ لبنان میں 52 فی صد ہے۔
سروے کے مطابق مسلم ممالک کے عوام کی اکثریت ترکی کو ایک رول ماڈل سمجھتی ہے اور موجودہ ترک حکومت کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتی ہے۔
سروے کے نتائج کے مطابق پاکستان میں اسلامی قوانین کی حمایت کرنے والوں کی کل تعداد 97 فی صد کے لگ بھگ ہے
پاکستانی عوام میں ترکی کو پسند کرنے والوں کی تعداد 64 فی صد، مصر میں 86 فی صد، اردن میں 72 فی صد، لبنان میں 59 فی صد جب کہ تیونس میں 78 فی صد ہے۔
امریکہ بدستور مسلم ممالک میں ناپسندیدہ ترین ملکوں میں سے ایک ہے اور پاکستانی عوام امریکہ کو ناپسند کرنے میں دیگر پانچوں ممالک کے عوام سے آگے ہیں۔
سروے کے نتائج کے مطابق 80 فی صد پاکستانی امریکہ کو ناپسند کرتے ہیں جب کہ ترکی میں یہ تعداد 72 فی صد، مصر میں 79 فی صد اور اردن میں 76 فی صد ہے۔ تیونس اور لبنان میں امریکہ کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات نسبتاً کم ہیں جہاں بالترتیب 45 اور 49 فی صد افراد امریکہ کے مخالف ہیں۔