- By قمر عباس جعفری
طیارے کے حادثے میں انسانی غلطی کا کتنا امکان ہے
پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی میں لاہور سے آنے والا ایئر بس کا طیارہ A-320-200 گر کر تباہ ہونے سے عملے کے 8 ارکان سمیت 97 افراد ہلاک ہو گئے جب کہ دو معجزانہ طور بچ گئے تھے۔
یہ حادثہ کیسے اور کیوں ہوا۔ اس کے اسباب تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔ لیکن اس قسم کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے اس حادثے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں یہ جاننے کے لئے ہم نے اس شعبے کے ایک ماہر سے گفتگو کی۔
فہد ابن مسعود، کمرشل سول ایوی ایشن کے ایک ماہر اور طیاروں کے حادثے کے تفتیش کار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہیومن فیکٹر سپیشلسٹ ہیں، یعنی اس بارے میں تحقیقات کے ماہر ہیں کہ کسی طیارے کے حادثے میں انسانی غلطی کا کتنا دخل ہے۔ وہ ایک امریکی اور ایک آسٹریلوی کمپنی کے لئے اسی نوعیت کے خدمات انجام دیتے ہیں۔
اس حادثے کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایئر بس کے طیارے میکانیکی طور پر اچھے ہوتے ہیں۔ یہ جہاز جو گر کر تباہ ہوا ہے، صرف دس سال پرانا تھا اور میکانیکی اعتبار سے اچھی حالت میں تھا۔ اس جہاز نے حال ہی میں مسقط سے واپسی کا بھی سفر کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس حادثے میں انسانی غلطی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ ایئر بس کمپنی کے طیارے جب اترنے لگتے ہیں تو اس عمل میں پائلٹ کا رول کم ہو جاتا ہے اور خود کار نظام پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔
انہوں نے طیارے کو اتارنے کے لیے ہوا باز کی بار بار کوشش اور اس دوران طیارے کے اوپر جانے اور اس کی رفتار اور بلندی اور جہاز کے میکانیکی نظام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ہوا باز کے پاس کیا متبادلات تھے۔
فہد ابن مسعود کا کہنا تھا کہ اس صورت میں جس میکانیکی نظام کو استعمال ہونا چاہئے تھا وہ بظاہر استعمال نہیں ہو سکا۔ کیوں استعمال نہیں ہو سکا، اس کا جواب تحقیقات کے بعد ہی مل سکے گا۔
انہوں نے بتایا کہ جب ایک مرتبہ لینڈنگ کی کوشش میں طیارہ زمین کو چھو کر پھر فضا میں بلند ہوا تو ہوا باز نے دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کے لئے آتے ہوئے کنٹرول کو بتایا کہ اس کے دونوں انجن بند ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں ایک تیکنیکی نظام جسے RAT کہتے ہیں فعال ہو جاتا ہے۔ آپ اسے تیکنیکی پنکھا کہہ سکتے ہیں۔ وہ جہاز کو الیکٹرک اور ہائیڈرالک پاور فراہم کرتا ہے۔
فہد ابن مسعود کا کہنا تھا کہ جہاز کے مسافروں کے چہروں پر ماسک تھے، جو اس صورت میں خود کار طریقے سے نکلتے ہیں جب جہاز بہت زیادہ ہچکولے کھا رہا ہو یا کوئی بڑی تیکنیکی خرابی پیدا ہو گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ اب سول ایویشن اتھارٹی کے تحت سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے، جب کہ دنیا بھر میں خود مختار تحقیقاتی ادارے ایسے معاملات کی تحقیقات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے شکاگو کنونشن کے اینکس 13 معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں جس کے تحت وہ اس قسم کے واقعات کی تحقیقات کے لئے خود مختار ادارہ بنانے کا پابند ہے جو آج تک نہیں بن سکا۔ یہ ادارے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن یا آئی سی اے او کو رپورٹ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اصلاح احوال کے لئے تحقیقاتی رپورٹوں کا منظر عام پر آنا اور ان کی روشنی میں لائحہ عمل کا تعین ضروری ہے۔
طیارہ حادثہ: 41 میتیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے
کراچی کے جناح گارڈن میں پی آئی اے کے طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے 97 افراد میں سے 41 کی میتیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ میتیں لے جانے کے لیے پی آئی اے نے لواحقین کو انٹرنیشنل اورر ڈومیسٹک ٹکٹیں بھی جاری کیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر میتوں کو گھروں تک پہنچایا جا رہا ہے۔ اب تک چار میتیں لاہور اور تین اسلام آباد پہنچائی جا چکی ہیں۔
حادثے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کو پی آئی اے کے ایئر پورٹ ہوٹل اور قصرِ ناز میں منتقل کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ 32 لواحقین کو بھی ان رہائش گاہوں میں ٹھیرایا گیا ہے۔
طیارہ گرنے سے تباہ ہونے والے گھروں اور متاثرہ املاک کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے ٹیم نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔
ایئر بس کی تحقیقاتی ٹیم کی کراچی آمد
ایئر بس کی تحقیقاتی ٹیم کا جائے حادثہ کا دورہ، طیارے کے ملبے کا معائنہ
ایئربس کی تحقیقاتی ٹیم نے منگل کو کراچی میں جائے حادثہ کا دورہ کیا اور تباہ ہونے والے طیارے کے ملبے کا معائنہ کیا۔ تحقیقاتی ٹیم نے طیارے کے انجنوں، لینڈنگ گیئر، ونگز اور فلائٹ کنٹرول سسٹم کا جائزہ لیا۔
غیر ملکی ٹیم نے طیارہ گرنے سے تباہ ہونے والے گھروں کا بھی معائنہ کیا۔ طیارے کے ملبے اور متاثرہ عمارتوں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائیں۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے فائر ڈپارٹمنٹ اور پی آئی اے کے فلائٹ سیفٹی اور انجینئرنگ کے افسران نے غیر ملکی ٹیم کو بریفنگ دی۔