پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی اپیلوں کو نمٹانے سے متعلق عدالت میں جواب داخل کروائے۔
منگل کو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفراللہ خان کی درخواست کیسماعت کرتے ہوئے حکومت سے کہا کہ وہ ملک میں سات ہزار سے زائد سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر قیدیوں سے متعلق آئندہ 15 روزمیں رپورٹ جمع کرائے۔
درخواست گزار نے سپیرم کورٹ کو بتایا کہ ملک میں سزائے موت پانے والے بہت سے قیدی کئی سالوں سے جیلوں میں بند ہیں اور پاکستان کے قانون کے تحت سزا سنانے دو سال کے اندر اندر پھانسی دینا یا ان کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنا لازمی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر ظفراللہ خان نے کہا کہ یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ موت کی سزا پانے والے متعدد قیدی 10-15 سالوں سے جیلوں میں قید ہیں جہاں وہ اتنی بری زندگی گزارتے ہیں کہ ان کے حواس تک متاثر ہو جاتے ہیں۔
’’تعزیرات پاکستان میں (قتل عمد کے جرم کے لیے) دفع 302 بی ہے۔ اس میں دو سزائیں ہوتی ہیں، عمر قید یا سزائے موت۔ یہ جج کی صوابدید ہے کہ وہ عمر قید دے دے یا سزائے موت دے دے۔ اس کے درمیان میں (انتظار) کا جو وقفہ ہے کہ وہ نہ تو سزائے موت میں آتا ہے نہ عمر قید میں۔ نہ یہ تعزیرات پاکستان میں ہے نہ آئین میں ہے۔ تو میں یہ کہتا ہوں کہ یہ عدالتی نظام کی سزا ہے۔ آپ کا اپنا قانون کہتا ہے پاکستان کا کہ دو سال کے اندر اندر سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزا پر عملدرآمد کر دیں یا پھر اسے عمر قید میں بدل دیں۔‘‘
بیرسٹر ظفراللہ کا مؤقف تھا کہ سزائے موت کے قیدیوں کے 1,031 کیس سپریم کورٹ زیر التوا ہیں، 5,378 کیس ہائی کورٹس، 21 فیڈرل شریعت کورٹ اور چھ جنرل ہیڈ کوارٹرز میں زیر التوا ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت 532 رحم کی اپیلیں صدر مملکت کو بھیجی گئی ہیں۔
ان میں سے کئی کیس ایسے ہیں جو 19 سال سے زیر التوا ہیں جبکہ عدالتوں کے حکم پر 78 کیسوں میں سزائے موت کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا بغیر قانونی جواز کے لوگوں کو قید رکھنا ان بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جن کی ضمانت آئین نے دی۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ ملک بھر میں موت کے منتظر قیدیوں کی اپیلوں کو جلد نمٹائے اور جو قیدی پہلے ہی کئی سال جیل میں گزار چکے ہیں، قانونی اصلاحات آرڈیننس 1972 میں ترامیم کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہماری جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی بند ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جیلوں کی آبادی کم کرنے کے لیے سزائے موت کے منتظر قیدیوں کو پھانسی دے دی جائے۔
’’انسانی حقوم کمیشن موت کی سزا کے خلاف ہے۔ اور یہاں پہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت اندیشہ ہوتا ہے کہ انصاف نہیں ہو رہا۔ اگر ذرا بھی شبہ ہو تو موت کی سزا مناسب نہیں۔ اگر رحم کی اپیل صدر کے پاس ہو تو وہ اسے قبول کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہر کیس کو انفرادی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں 2008 میں سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی تھی جسے دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد ہٹا لیا گیا تھا جس کے بعد سے اب تک 330 سے زائد قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی کمیشن کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی تمام جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں جن میں سے دو تہائی اپنے مقدمات کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔