پاک افغان سربراہ اجلاس میں افغانستان میں امن کو خطے کے لئے نا گزیر قرار دیتے ہوئے متحارب گروہوں کو بات چیت پر آمادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ تجزیہ کاروں نے پروگرام ’’جہاں رنگ‘‘ میں میزبان بہجت جیلانی سے بات کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کی اعلیٰ قیادت کے درمیان جمعے کے روز ہونے والی بات چیت کو مثبت قرار دیا۔
پاکستان، افغانستان اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کاروں نے اتفاق کیا کہ رابطوں اور بات چیت کا تسلسل اس معاملے کو آگے کی طرف لے جانے والا ایک قدم ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے طالبان کو غیر مشروط بات چیت کی پیشکش صورتحال میں تبدیلی لانے کا موقع فراہم کرتی ہے اور اب پاکستان اور امریکہ کےلئے ضروری ہے کہ وہ فعال انداز میں کردار ادا کریں اور امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں معاونت کریں۔
تجزیہ کار زور دیتے ہیں کہ اس وقت ایک اہم مسئلہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جسے دورکرنے کے لئے دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ اپنے مشترکہ دشمن دہشت گردی کے خلاف بلا امتیاز کوشش کریں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بند کریں۔
افغان تجزیہ کار نے بتایا کہ میڈیا اور حکومتی سطح پر اس اجلاس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مثبت قرار دیا گیا ہے تاہم عوامی سطح پر تجارت اور ٹرانزٹ پر پابندیوں کی وجہ سے بدستور خدشات پائے جاتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں ان امور اور متعلقہ مسائل پر بھی غور ہوا ہے۔
تجزیہ کار اسے ایک وسیع تر بات چیت قرار دیتے ہیں کیونکہ پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے صدر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے علاوہ حزب وحدت کے استاد محمد محقق سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں جسے تجزیہ کارون نے مصالحت کے تناظر میں مثبت قرار دیا ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھ کہ ان مذاکرات میں علاقائی روا بط اور رابطہ کاری پر توجہ مرکوز کرنا بھی ایک مثبت سمت میں پیش رفت ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔