کراچی —
پاکستان کے وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف نے سپریم کورٹ کی جانب سے اصغر خان کیس میں دیے جانےو الے فیصلے پر "سو فی صد" عمل کرنے کا اعلان کرتےہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت عدالتی فیصلے کی روشنی میں معاملے کی آزادانہ تفتیش کرائے گی۔
جمعے کی شام اسلام آباد میں ایک غیر روایتی پریس کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ کےفیصلے کی روشنی میں ان تمام افراد سے تفتیش کی جائے گی جن پر 1990ء کے عام انتخابات میں فوجی افسران سے پیسہ وصول کرنے کے الزامات ہیں۔
قبل ازیں جمعے کی دوپہر پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے فوجی انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کی طرف سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق 16 سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ شواہد کی روشنی میں ثابت ہو گیا ہے کہ مرحوم سابق صدر غلام اسحاق خان، اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے 1990ء کے انتخابات میں سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی تھیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق یہ ایک خلاف آئین فعل تھا جس نے نہ صرف انتخابات کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ قوم کی نظر میں فوج کی بدنامی کا باعث بھی بنا۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ مذکورہ تینوں افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جب کہ تحقیقات کر کے رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں سے بھی اس کا حساب لیا جائے۔
اپنی پریس کانفرنس میں وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے پیسہ لینے والے قوم سے معافی مانگیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پیسے لینے والوں کو شاید قوم معاف کردے لیکن وہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ قوم کو پتا چلنا چاہیے کہ اس سازش میں کون کون شریک تھا اور یہ کب اور کہاں تیار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ حربے استعمال نہ کیے جاتے تو 90ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی۔
یہ مقدمہ 1996ء میں فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے دائر کیا تھا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار رہنے کے بعد رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے اس کی دوبارہ سماعت شروع کی جس کے اختتام پر جمعے کو مختصر فیصلہ سنایا گیا۔
وزیرِاعظم نے اصغر خان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طویل قانونی جنگ لڑی جس میں وہ سرخرو ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 16 سال بعد سامنے آنے والے عدالتی فیصلے کے ذریعے "تاریخ نے اپنے سینے سے سچ اگل دیا ہے اور حقیقت پوری دنیا کے سامنے آگئی ہے"۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ 'ایف آئی اے' اس مقدمے میں قانون کے مطابق کاروائی کرے گا اور تحقیقات کے بعد جو کچھ پتا چلے گا اسے قوم کے سامنے لائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا ٹاسک صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے جس کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔
جمعے کی شام اسلام آباد میں ایک غیر روایتی پریس کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ کےفیصلے کی روشنی میں ان تمام افراد سے تفتیش کی جائے گی جن پر 1990ء کے عام انتخابات میں فوجی افسران سے پیسہ وصول کرنے کے الزامات ہیں۔
قبل ازیں جمعے کی دوپہر پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے فوجی انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کی طرف سے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق 16 سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ شواہد کی روشنی میں ثابت ہو گیا ہے کہ مرحوم سابق صدر غلام اسحاق خان، اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے 1990ء کے انتخابات میں سیاستدانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی تھیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق یہ ایک خلاف آئین فعل تھا جس نے نہ صرف انتخابات کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ قوم کی نظر میں فوج کی بدنامی کا باعث بھی بنا۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ مذکورہ تینوں افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے جب کہ تحقیقات کر کے رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں سے بھی اس کا حساب لیا جائے۔
اپنی پریس کانفرنس میں وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے پیسہ لینے والے قوم سے معافی مانگیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پیسے لینے والوں کو شاید قوم معاف کردے لیکن وہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ قوم کو پتا چلنا چاہیے کہ اس سازش میں کون کون شریک تھا اور یہ کب اور کہاں تیار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ حربے استعمال نہ کیے جاتے تو 90ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی۔
یہ مقدمہ 1996ء میں فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے دائر کیا تھا مگر مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار رہنے کے بعد رواں سال فروری میں سپریم کورٹ نے اس کی دوبارہ سماعت شروع کی جس کے اختتام پر جمعے کو مختصر فیصلہ سنایا گیا۔
وزیرِاعظم نے اصغر خان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طویل قانونی جنگ لڑی جس میں وہ سرخرو ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 16 سال بعد سامنے آنے والے عدالتی فیصلے کے ذریعے "تاریخ نے اپنے سینے سے سچ اگل دیا ہے اور حقیقت پوری دنیا کے سامنے آگئی ہے"۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ 'ایف آئی اے' اس مقدمے میں قانون کے مطابق کاروائی کرے گا اور تحقیقات کے بعد جو کچھ پتا چلے گا اسے قوم کے سامنے لائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا ٹاسک صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے جس کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔