پاکستان میں ان دنوں سول افسران کی ترقی کے حوالے سے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو اسپیشل ویٹنگ ایجنسی قرار دینے کے معاملے پر بحث کی جا رہی ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا کر کے سول بیوروکریسی کو ایک طاقتور ادارے کے ماتحت کر دیا گیا ہے جب کہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس سے شفافیت میں اضافہ ہوگا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے سویلین اداروں میں تعیناتی اور تقرری کے لیے افسران کی جانچ پڑتال اور معلومات کی فراہمی کے لیے ملک کے سویلین ادارے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سے اختیارات لے کر پاکستان کی فوج کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو دے دیے ہیں۔
اسپیشل ویٹنگ ایجنسی یعنی افسران کے تقرر سے قبل جانچ پڑتال کا اختیار آنے کے بعد اب تمام اہم عہدوں پر پوسٹنگ یا تعیناتی آئی ایس آئی کی فراہم کردہ رپورٹ کی بنیاد پر ہوں گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کے سویلین انٹیلی جنس اداروں میں افسران اپنے ہی ساتھیوں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور بعض معاملات میں گڑبڑ ہونے کے باوجود انہیں کلیئرنس دے دی جاتی ہے جب کہ آئی ایس آئی پر کوئی شخص یا ادارہ اثر انداز نہیں ہوگا۔ دوسری جانب بعض تجزیہ کار حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ملک کے سویلین افسران کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا جب کہ پاکستان کے سویلین انٹیلی جنس ادارے بھی کمزور ہو جائیں گے۔
پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے سابق سیکریٹری تسنیم نورانی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر ادارے کا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے۔ اگر آپ آئی ایس آئی کو شامل کریں گے تو سول اور ملٹری اداروں کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا کیوں کہ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس اب بھی آتی ہیں، جن میں آئی بی اور اسپیشل برانچ شامل ہیں۔
آئی ایس آئی کو سول افسران کی جانچ پڑتال اور اس حوالے سے رپورٹ کے اختیار پر تسنیم نورانی نے کہا کہ اگر ایک ادارے کو اسپیشل ویٹنگ ادارہ قرار دے دیا جائے گا اور اس کو سرکاری طور پر اجازت دے دی جائے گی تو اس کی کسی رپورٹ کو رد کرنا سلیکشن بورڈ، پبلک سروس کمیشن اور پروموشن بورڈ کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی سول اداروں کی تجاویز فوج کے ایک ادارے کے ساتھ دیں گے تو فوج کی رپورٹ کو رد کرنا مشکل ہوگا۔ اس عمل سے ایک ادارے کو زیادہ بااختیار بنا دیا جائے گا۔ پروموشن بورڈ یا ایک ادارے کے سربراہ کا کام کیا رہ جائے گا کہ اگر آئی ایس آئی کی رپورٹ منفی ہوئی تو کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کا کوئی اپیل سسٹم نہیں ہے۔ کوئی نظرثانی کا نظام نہیں ہے۔ یہ صرف انٹیلی جنس رپورٹ ہے جس پر کوئی جواز بھی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر کسی افسر کی مزید تحقیق کرنا ضروری سمجھ رہے ہیں تو اس کے اپنے اداروں کے اندر مزید کوئی نظام بنایا جا سکتا ہے۔
تسنیم نورانی کا کہنا تھا کہ اس عمل سے ایک ادارے کے ہاتھ میں زیادہ اختیارات آجائیں گے۔ ایک ہی ادارے کو طاقت کا مرکز بنا دیا جائے گا اور سوچ یہ ہوگی کہ باقی ادارے درست کام نہیں کررہے تو اس سے نقصان ہوگا۔ ہر ادارے کا اپنا کردار ہے لیکن سول اداروں کو فوج کے اداروں سے منسلک کریں گے تو بہتری کا امکان کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی رپورٹس پہلے بھی دیتی تھی لیکن اہم ترین خفیہ ادارہ ہونے اور جانچ پڑتال کے اختیارات حاصل ہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ آئی ایس آئی کی رپورٹس کی تفصیل بھی افسر کو نہیں دی جاتی اور صرف اثرات کا پتا چلتا تھا کہ ان کی پروموشن یا سلیکشن نہیں ہو رہی، کس وجہ سے نہیں ہو رہی اس بارے میں افسر کو کوئی بھی معلومات نہیں دی جاتی۔
سابق سیکرٹری داخلہ نے ماضی کے حوالے سے بتایا کہ ماضی میں سول انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کے بارے میں کچھ نہ کچھ آگاہی ہو جاتی تھی اور بعض سینئر افسران بتا دیتے تھے کہ انٹیلی جنس ادارے سے کوئی اعتراض سامنے آیا ہے لیکن فوج کے اداروں میں جیسا خفیہ نظام ہے، ایسا ہی ان کی رپورٹس کے خفیہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ افسر کو کچھ بھی آگاہی نہیں ہوتی اور اسے پروموشن یا سلیکشن سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
البتہ پاکستان کی فوج کے سابق افسر بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کی طرف سے رپورٹس دینا کوئی نیا عمل نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اسی طرح آئی ایس آئی کی طرف سے تمام افسران اور اہم تعیناتیوں پر رپورٹس دی جاتی رہی ہیں۔
حارث نواز نے مزید کہا کہ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ جتنے افسران کی ترقی ہوتی ہے، چاہے وہ فوج میں ہوں یا ان کا تعلق سول بیورو کریسی سے ہو۔ ان کے ماضی، سیاسی وابستگی، کام کرنے کے طریقۂ کار کے بارے میں آئی ایس آئی کی مکمل رپورٹ دی جاتی تھی۔
انہوں نے فوج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی کی آرمی میں ترقی کے حوالے سے رپورٹ تو اور بھی سخت ہوتی ہے جہاں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی دونوں اس بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔
ان کے خیال میں اس عمل سے بہتری آئے گی کہ لوگ کچھ ڈریں گے تو سہی۔ وہ دیکھ سکیں گے کہ ان لوگوں نے ماضی میں کیا غلطی کی ہے۔
حارث نواز نے کہا کہ پہلے بھی سلیکشن تمام ادارے ہی کرتے ہیں اور حکومت انہیں تعینات کرتی ہے۔ آئی ایس آئی کی رپورٹس کے بعد بھی پروموشن بورڈز یا پبلک سروس کمیشن کا کام ہے کہ وہ اس رپورٹ کو اہمیت دیں یا نہ دیں کیوں کہ ان بورڈز میں کوئی بھی آئی ایس آئی کا یا فوج کا افسر نہیں ہوتا۔ صرف ایک رپورٹ ساتھ لگی ہوتی ہے جس میں ان کی ماضی، کرپشن، قواعد کی خلاف ورزی یا سیاسی وابستگی کے حوالے سے بتایا جاتا ہے۔
ان کے بقول ایسے میں ان افسران کی مرضی ہے کہ وہ اس افسر کو ترقی دیں یا نہ دیں۔ اس سے کسی ادارے کا اختیار کم ہونے کا مسئلہ نہیں ہے۔
سول اداروں سے یہ اختیار لینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سول ادارے براہِ راست حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ حکومت کے اثر میں ہوتے ہیں۔ وہیں حکومت میں بیٹھے لوگ اپنی انٹیلی جنس اپنے دوست افسروں سے کلیئر کرا لیتے ہیں۔ فوج میں ایئرفورس، نیوی یا آرمی کے افسران سب کی پروموشن یا اسٹاف کالج یا وارکورس سے پہلے اسکروٹنی آئی ایس آئی کرتی ہے اور یہ ادارہ کسی بھی طرح اثر انداز نہیں ہوتا۔
حکومت کے اس فیصلے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ خدا کے واسطے ایسا نہ کریں۔ شہید بے نظیر بھٹو نے ایسا کرنے سے 1996 میں انکار کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس عمل سے تمام سول بیوروکریسی آئی ایس آئی کے ماتحت کر دی جائے گی۔ اس فیصلے سے سول بیوروکریسی میں یک طرفہ تبدیلی آ جائے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایسا اتحادی حکومت نے کیا ہے؟ برائے مہربانی اس پر نظرِ ثانی کی جائے۔
مقامی صحافی حسنات ملک نے کہا کہ حکومت اگرچہ آئی ایس آئی کو ویریفکیشن اور اسکریننگ کے لیے اختیارات دے رہی ہے لیکن ماضی میں جوڈیشل کمیشن نے ججز کی تعیناتی یا کنفرمیشن کے حوالے سے بغیر دستخط شدہ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر صلاح الدین احمد نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ انہیں انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے جانچ کے عمل سے کوئی مسئلہ نہیں۔ امریکہ میں بھی ایف بی آئی یہ کام کرتی ہے۔ ایف بی آئی امریکی کانگریس کے قانون کے مطابق یہ کام کرتی ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان میں کس قانون کے تحت آئی ایس آئی یہ کام کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا شہباز شریف سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے بوٹ پالش کے ریمارکس کو درست ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ اگر سویلین افسران کی چھان بین کا فریضہ آئی ایس آئی کی ذمہ داریوں میں شامل کیا جاتا ہے تو پھر آئی آیس آئی کو بھی سویلین انتظامیہ کے زیرِ سپرد ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کو جوابدہ بھی ہونا چاہیے۔
سابق وزیراطلاعات و نشریات اور تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے پرویز رشید کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ درست کہہ رہے ہیں۔ اگر اداروں نے اپنا کردار اور بڑھانا ہے تو پھر اس کی قیمت آپ کو عوامی احتساب کی صورت میں چکانی پڑے گی۔
آئی ایس آئی کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ ادارے نے سوچنا ہے اس نے پاکستان کی سیاست میں اپنا کیا کردار رکھنا ہے؟
انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان میں اداروں کے نئے کردار پربحث کی ضرورت ہے۔