برفانی ریچھ کا شمار کرہ ارض کے خوبصوت جانوروں میں کیا جاتا ہے، لیکن سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ ہم اس قدرتی حسن سے محروم ہونے والے ہیں اور اس صدی کے آخر تک برفانی ریچھ کی نسل دنیا سے غائب ہو سکتی ہے۔
جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ برفانی ریچھ کی تعداد پہلے ہی اس کم تر سطح پر پہنچ چکی، جس سے اس کی نسل کی معدومی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ برفانی ریچھ کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ بالواسطہ طور پر حضرت انسان سے ہے، کیونکہ انسانی سرگرمیوں سے کرہ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے قطبی علاقوں میں ہزاروں برسوں سے منجمد گلیشیئر اور برف پگھل رہی ہے، جس کے نتیجے میں برفانی ریچھوں کے قدرتی ٹھکانے اور خوراک سمٹتی جا رہی ہے۔
برفانی ریچھ کی پسندیدہ خوراک قطبی علاقوں میں برف کے نیچے یخ پانی میں پائی جانے والی سیل ہے۔ برفانی ریچھ برف کے شکافوں میں سے اس کا شکار کرتا ہے اور اپنے بچوں کو کھلاتا ہے۔ لیکن، اب ہو یہ رہا ہے کہ گلیشیئرز میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے، جس کی وجہ سے برفانی ریچھ کناروں پر رہتے ہیں اور آگے جانے سے گریز کرتے ہیں۔ ساحلی علاقوں میں اسے شکار کے حصول میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ اپنے بچوں کو مناسب مقدار میں خوراک فراہم نہیں کر پا رہا۔
کینیڈا کی یونیورسٹی آف آنٹیریئو کے پروفیسر ڈاکٹر پیٹر مولنار کہتے ہیں کہ برفانی ریچھ آب و ہوا کی تبدیلی کی ایک نمایاں علامت بن گیا ہے۔ وہ پہلے ہی دنیا کی چوٹی پر بیٹھا ہے۔ اگر برف ختم ہو گئی تو ایسی کوئی اور جگہ بھی نہیں ہے جہاں وہ چلا جائے۔
فطرت کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارے، آئی یو سی این نے آب و ہوا کی تبدیلیوں کے پیش نظر برفانی ریچھ کو ان جانوروں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جن کی نسل کو دنیا سے مٹ جانے کا خطرہ لاحق ہے۔
اس سلسلے میں کیے گئے مطالعاتی جائرے بتاتے ہیں کہ جیسے جیسے گلیشیئرز اور آرکٹک کی برف پگھل رہی ہے، برفانی ریچھوں کی تعداد بھی گھٹ رہی ہے۔ آئی یو سی این کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں برفانی ریچھوں کی کل تعداد دو ہزار سے ڈھائی ہزار کے درمیان ہے، جس میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
برفانی ریچھ کے تحفظ کے ایک ادارے پولر بیئرز انٹرنیشنل کے چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر سٹیون ایمسٹرپ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ یہ سب سے پہلے برفانی ریچھ کے بچوں کو بقا کا مسئلہ درپیش ہے، کیونکہ برف پگھلنے کے دنوں میں مادہ برفانی ریچھ کا جسم اب اتنا توانا اور صحت مند نہیں ہوتا کہ وہ دودھ کی اتنی مقدار پیدا کر سکے جتنی اس کے بچوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کمزور رہ جاتے ہیں اور وہ موت کا آسانی سے ہدف بن سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ آرکٹک کے کئی حصوں میں اس صورت حال کا سامنا ہے اور وہاں رہنے والے برفانی ریچھ خورک کی قلت اور اپنے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کی مناسب مقدار میں کمی کے مسئلے سے گزر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر دنیا آب و ہوا کے مسئلے کی سنگینی کو سمجھ لے اور اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ ہو جائے تو ہم برفانی ریچھ کی نسل کو مٹنے سے بچا سکتے ہیں۔
لیکن ہمارے کرہ ہوائی میں جس رفتار سے گرین ہاؤس گیسیوں کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس صدی کے خاتمے تک قطبی علاقے برف سے خالی ہو جائیں گے اور جب برف ہی نہیں رہے گی تو برفانی ریچھوں کی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔
سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے کی موجودہ رفتار کے پیش نظر 2100 کے آغاز تک ایسا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کہ نہ صرف برفانی ریچھ کا دور بھی ختم ہو جائے گا، بلکہ جنگلی حیات کی کئی اور اقسام بھی دنیا سے مٹ جائیں گی۔