بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کا کہنا ہے کہ شورش زدہ علاقے میں بھارت سے الحاق کے حامی سیاسی رہنماؤں، بالخصوص حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں اور کارکنوں کو علیحدگی پسند عسکریت پسندوں سے خطرہ ہے جس کے پیشِ نظر ان کو تحفظ فراہم کرنے کی حکمتِ عملی تبدیل کی جا رہی ہے۔
کشمیر کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس افسر وجے کمار نے دارالحکومت سرینگر میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جمعرات کو شہر کے مضافاتی علاقے نوگام میں بی جے پی کے مقامی رہنما انور خان کے گھر پر حملہ کیا گیا تھا۔ حملے میں ملوث چار میں سے تین عسکریت پسندوں کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر کارروائی کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔
بی جے پی کے رہنما کے گھر پر عسکریت پسندوں کے مبینہ حملے میں ایک پولیس اہلکار رمیز راجہ ہلاک ہوا تھا۔
رپورٹس کے مطابق عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان مقابلہ جمعے کی صبح جنوبی ضلع پلوامہ کے کاکا پورہ علاقے کے گھاٹ محلہ میں شروع ہوا تھا۔
آئی جی پولیس وجے کمار نے کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی اس جھڑپ میں ہلاک ہونے والے افراد کے نام سہیل احمد لون، نثار احمد وانی اور جنید احمد بتائے۔
وجے کمار نے دعویٰ کیا کہ ہلاک ہونے والوں کا تعلق کالعدم لشکرِ طیبہ اور البدر مجاہدین سے تھا۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کو زیر کرنے میں تاخیر اس لیے ہوئی۔ کیوں کہ انہوں نے چند شہریوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
مقامی افراد نے پولیس کے شہریوں کو یرغمال بنانے کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ یہ شہری اس مکان میں پھنس گئے تھے جس کو عسکریت پسندوں نے عارضی قیام گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا۔
ہلاک پولیس اہلکار کی بندوق برآمد
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مقامی پولیس کے شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی)، فوج اور وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی مشترکہ کارررائی کے دوران وہ بندوق (ایس ایل آر) بھی برآمد کر لی گئی جو نوگام میں ہدف بنائے گئے پولیس اہلکار سے چھین لی گئی تھی۔
آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ اس حملے میں چار عسکریت پسند ملوث تھے جن میں سے ایک نے برقع پہن رکھا تھا۔ حملے کے وقت بی جے پی رہنما انور خان گھر پر موجود نہیں تھے۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ تین ایسے افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے بی جے پی رہنما کے گھر پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کی معاونت کی تھی۔
بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کو شدید خطرہ لاحق
صحافیوں کے استفسار پر آئی جی پولیس نے بتایا کہ کشمیر میں جتنے بھی قوم پرست (بھارت کے حامی) سیاسی رہنما اور کارکن ہیں۔ ان سب کو دہشت گردوں کی جانب سے خطرہ لاحق ہے۔ البتہ بی جے پی سے وابستہ افراد کو زیادہ خطرہ ہے۔
وجے کمار نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کے جان و مال کے تحفظ کے سلسلے میں اپنائی گئی حکمتِ عملی میں ضروری تبدیلی لائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی حکمتِ عملی کے تحت اہم شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کو حاصل سیکیورٹی کور کو مضبوط کیا جائے گا۔ ان کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کو نئے تقاضوں کے مطابق تربیت دی جائے گی اور جہاں ضرورت سمجھی گئی پولیس محافظوں کو بدل دیا جائے گا۔
پلوامہ میں جمعے کو سیکیورٹی فورسز اور مبینہ عسکریت پسندوں میں ہونے والے مقابلے میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نے احتجاج کے لیے سڑکوں کا رخ کیا۔ وہ بھارت سے آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے مقابلے کی جگہ کے قریب بڑھنے لگے۔ تو پولیس نے انہیں روکنے کے لیے مبینہ طور پر طاقت کا استعمال کیا۔
رپورٹس کے مطابق ایک 25 برس کی خاتون کی ٹانگ میں گولی لگی۔ جب کہ ایک اور مقامی شہری چھرے والی بندوق کے استعمال کے نتیجے میں شدید زخمی ہوا۔ عینی شاہدین اور اسپتال ذرائع نے بتایا کہ ایک خاتون سمیت گیارہ شہری کارروائی میں زخمی ہوئے۔
آئی جی پولیس وجے کمار نے بتایا کہ خاتون عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آئیں۔ جب کہ اس موقعے پر مظاہرین کے پتھراؤ میں بھی تین افراد معمولی زخمی ہوئے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنے حتمی حملے میں اُس مکان کو، جس میں مبینہ عسکریت پسند موجود تھے، بارودی مواد استعمال کرکے تباہ کر دیا۔
کشمیر میں عسکریت پسندوں اور فورسز جھڑپوں میں حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ عسکریت پسندوں نے بھی سیکیورٹی فورسز پر حملے تیز کر دیے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس کی جانے والی متعدد کارروائیوں میں اب تک 30 عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں جن میں دو اعلیٰ کمانڈر بھی شامل تھے۔ عسکریت پسندوں کے اچانک حملوں یا ان سے ہونے والے مقابلوں میں 14 سیکورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
وجے کمار نے کہا کہ جموں و کشمیر میں اس وقت 200 کے قریب عسکریت پسند سرگرم ہیں۔