رسائی کے لنکس

میر واعظ عمر فاروق پر عائد تازہ پابندی کے خلاف سری نگر میں احتجاج


میر واعظ عمر فاروق، فائل فوٹو
میر واعظ عمر فاروق، فائل فوٹو

کشمیری سیاسی اور مذہبی راہنما میر واعظ عمر فاروق کو پولیس کی جانب سے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں وعظ و تبلیغ کرنے سے روکنے کے خلاف اُن کے حامیوں نے جمعے کو شہر کے پرانے حصے میں ایک مظاہرہ کیا۔

مظاہرین نے جن کے ہاتھوں میں کتبے اور میر واعظ عمر کی تصویریں تھیں، حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور مذہبی اور سیاسی راہنما کی نقل و حرکت پر گزشتہ 19 ماہ سے جاری پابندیوں پر احتجاج کیا۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے چھرے والی بندوقوں کا استعمال کیا۔ اگرچہ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں کسی کو چوٹ نہیں آئی، مقامی ذرائع نے بتایا کہ ایک خاتون کے پیلٹ لگیں۔

اس موقع پر پولیس نے مبینہ طور پر ایک پریس فوٹو گرافر ثاقب مجید کو گلے سے پکڑ کر اور ایک اور صحافی شفاعت فاروق پر بندوق کے بٹ سے وار کر کے انہیں اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی سے روکنے کی کوشش کی۔ وہاں موجود ذرائع ابلاغ سے وابستہ ان کے ساتھیوں نے اس پر احتجاج کیا۔

اس سے پہلے جامع مسجد کے اندر نمازیوں نے میر واعظ کو وہاں جانے سے روکنے کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔

میر واعظ عمر نے وائس آف امریکہ اردو کو فون پر دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگرچہ حکام نے بدھ کو یہ اعلان کیا تھا کہ اُن کی نظر بندی ختم کر دی گئی ہے اور وہ اب کہیں بھی آ جا سکتے ہیں، جمعرات کو رات گئے بعض پولیس عہدیدار سری نگر میں اُن کی رہائش گاہ پر پہنچے اور انہیں مطلع کیا کہ وہ اب بھی نظر بند ہیں اور جمعے کو جامع مسجد جانے کی کوشش نہ کریں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ میر واعظ پر یہ پابندی ان اطلاعات کے بعد حفظِ ماتقدم کے طور پر عائد کی گٗئی کہ بعض شر پسند عناصر شہر کے اُس علاقے میں، جہاں جامع مسجد واقع ہے، اُن کی موجودگی کے دوران امن و امان میں رخنہ ڈالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

میر واعظ عمر نے وی او اے اردو کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلے تمام فریقوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے، لیکن ان کے بقول بھارت اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہا ہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ جنوبی ایشیا کے پورے علاقے میں دائمی امن قائم اور استحکام پیدا کرنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اگست 2019 کے بعد کسی صحافی کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ انہیں نظر بند رکھا جاتا ہے یا آزاد وہ ہرحال میں کشمیر کے مسئلے کو اس کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔

میر واعظ عمر اُن سینکڑوں کشمیری سیاست دانوں، سول سوسائٹی کارکنوں، تاجر انجموں کے نمائندوں اور وکلاء میں شامل ہیں، جنہیں بھارتی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں کا درجہ دینے سے پہلے یا اس کے فوراً بعد حراست میں لیا گیا تھا یا اُن کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے اکثر رہا کئے جا چکے ہیں۔

اس دوران امریکہ نے کہا ہے کہ کشمیر پر اس کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیر سمیت تمام آپسی مسائل اور خدشات کو دو طرفہ بات چیت سے حل کریں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG